مسئلہ نیب نہیں

مسئلہ نیب نہیں

سابق وزیر اعظم عمران خان کو پیپلز پارٹی کے ایک سینئر لیڈر اپنی صاف گوئی کی وجہ سے پسند نہیں تھے ۔ اس لیڈر نے ایک روز قومی اسمبلی میں کچھ ایسی گفتگو کی کہ اس وقت کی حکومت آپے سے باہر ہوگئی ۔ وزیر اعظم عمران خان نے نیب اور ایف آئی اے کو کارروائی کا حکم دیا ۔ دونوں اداروں نے فوری طور پر کوئی ایکشن نہیں لیا ۔ پھر پتہ چلا یہ ادارے جہاں سے ہدایات لیتے ہیں وہاں موجود افسر ایک دور میں سندھ میں خورشید شاہ کے علاقے میں تعینات رہنے کے سبب ان سے دوستانہ تعلقات بنا چکا تھا گرفتاری کا حکم جاری کرنے سے گریز کررہا تھا ۔ عمران خان وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی اپنی خواہش پوری نہ ہونے پر سخت اضطراب میں مبتلا تھے ۔ ایک روز وہی افسر اپنے سے بھی بڑے افسر کے ساتھ ایوان وزیر اعظم میں موجود تھا ۔ عمران خان نے گلہ کیا کہ نیب اور ایف آئی اے میری بات نہیں سن رہے ، یہ معاملہ ایسے نہیں چل سکتا ۔ یہ سنتے ہی وہاں موجود بڑے افسر نے حکم جاری کیا کہ اس وقت دوپہر کے ایک بجے ہیں ، تین بجے سے پہلے پہلے خورشید شاہ کوگرفتار کرلیا جائے ۔ ایسا ہی ہوا اور پھر خورشید شاہ دو سال تک قید میں رہے۔ جب تک اسٹیبلشمنٹ کا عمران حکومت کے متعلق رویہ تبدیل نہیں ہوا خورشید شاہ گرفتار ہی رہے ۔ یہ ہے ہمارے ملک میں احتساب کی اصل حقیقت۔ ان دنوں سیاسی حلقوں میں یہ بات زیر بحث ہے کہ نیب کو مکمل طور پر ختم ہی کیوں نہ کردیا جائے ۔ سرکاری افسر بہت پہلے ہی اس رائے پر پہنچ گئے تھے ، کاروباری برادری پہلے دن سے ہی نیب کو ختم کرنے کے لیے علانیہ اظہار کرتی رہی ہے ۔ پچھلی کسی بھی حکومت نے نیب کو ختم کرنے سے گریز کیا کہ کیونکہ اس ادارے کو سیاسی مخالفین کا بازو مروڑنے کے لیے استعمال کیے جانے کی روایت پختہ ہوچکی ہے ۔ پچھلی ہائبرڈ حکومت کے دور میں تو ظلم کی انتہا ہوگئی ۔ بڑے بڑے شرفا اور وائس چانسلر تک دھر لیے گئے ۔ کئی لوگ حراست میں ہی جان سے گئے ۔ موجودہ مخلوط حکومت جو اس تمام عتاب کا براہ راست نشانہ بنی ہے اور نیب قوانین میں ترمیم کررہی ہے تو اداروں کو خیال سوجا ہے کہ اس طرح تو ملک سے احتساب کا نظام متاثر ہوگا ۔ سابق وزیر اعظم عمران خان بڑے بڑے بیانات دے رہے ہیں کہ موجودہ حکمران اپنی کرپشن چھپانے اور مقدمات ختم کرانے کے لیے نیب کو ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ ادھر نہایت مصدقہ اطلاعات موجود ہیں کہ پچھلی حکومت میں شامل تقریباً تمام اہم عہدیداروں خصوصا ًعمران خان کے خلاف نیب کے درجنوں مقدمات تیار کرلیے گئے ۔  سابق خاتون اوّل کے خلاف پہلے ہی کرپشن کے سنگین الزامات ہیں ۔ اسی لیے ان کی دست راست سہیلی فرح گوگی کو حکومت ختم ہونے سے پہلے ہی ایک پراپرٹی ٹائیکون کے پرائیویٹ جہاز میں دبئی کے محفوظ ٹھکانے پر پہنچا دیا گیا ۔ اس سارے معاملے کا ایک بہت ہی آسان اور سادہ حل یہ ہے کہ حکومت عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کرپشن کے مقدمات دائر کر دے۔ گرفتاریوں کی نوبت آنے سے قبل ہی ضمانتوں کے لیے عدالتوں کے چکر لگانا پڑے تو ایک اور میگا یو ٹرن ہوگا ، کپتان اپنی ٹیم سمیت  بلند آواز میں التجا کرتا نظر آئے گا کہ نیب کو ختم کیا جائے ۔ ایسا نہیں ہمارے ملک میں کرپشن نہیں ۔ رشوت کا چلن عام ہے۔ خصوصاً پی ٹی آئی کے دور میں تو بدعنوانیوں کے معاملات موسلادھار بارش کی طرح برستے رہے ۔ ایک عام آدمی سے لے کر بڑے صنعتکار سمیت ہر 
کوئی کرپشن سے تنگ ہے۔ اس حوالے سے اور بھی محکمے موجود ہیں مگر نیب کی خود مختاری اور اس کے چیئرمین کی ملازمت کو حاصل تحفظ کے باعث یہ ادارہ بے پناہ اختیارات حاصل کرچکا ۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ مختلف اوقات میں اس سے مناسب باز پرس کرنے والا بھی کوئی نہیں ۔ جسٹس (ر)جاوید اقبال جیسے متنازع اور گھنائونے کردار کے دور میں جو کچھ ہوا وہ کھلی لاقانونیت اور غنڈہ گردی تھی ۔ اس کے باوجود آج بھی کچھ حلقے چاہئے ہیں نیب کا سسٹم اسی طرح کے چیئرمین کے ساتھ اسی انداز میں چلتا رہے ۔ منجھے ہوئے قانون دان عرفان قادر نے واضح کیا ہے کہ  نیب کو اس بات کا پورا اختیار ہے کہ حاضر سروس ججوں کی کرپشن پر ان کے خلاف کارروائی کرسکتا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ جج حضرات کبھی ایسا ہونے نہیں دیں گے ۔ اسی طرح کرپشن میں ملوث ریٹائرڈ فوجی افسروں کے خلاف کارروائی بھی نیب کے دائرہ اختیار میں شامل ہے ۔ مگر اس طرف بھی کسی کی نظر نہیں جاتی ۔ سابق کور کمانڈر جنرل عاصم باجوہ کی بیرون ملک کاروباری سلطنت کا انکشاف ہوا تو اگلے ہی روز صحافیوں نے نیب کے ڈی جی کو جو عدالت میں پیشی کے لیے آئے ہوئے تھے ، سامنے پاکر جنرل عاصم باجوہ کے خلاف ایکشن لینے کے متعلق پوچھا تو نیب کے ‘‘ خونخوار ‘‘ ڈی جی نے معصوم سا منہ بناتے ہوئے کہا کون عاصم باجوہ ؟ اسی طرح پنڈورا لیکس میں مشہور زمانہ جنرل اختر عبدالرحمن کے سوئس اکاؤنٹس نکل آئے تو کوئی ٹس سے مس نہ ہوا ۔ اسی پنڈور ا لیکس میں ایک اور سابق لیفٹیننٹ جنرل شفاعت اللہ شاہ کا لندن کے پوش علاقے میں لگژری فلیٹ نکل آیا تو سب کو سانپ سونگھ گیا ۔ اسی طرح ججوں کا معاملہ ہے ۔ یہ الزام لگایا گیا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے ڈاکٹر بھائی کو فائدہ پہنچانے کے لیے پی کے ایل آئی جیسے عظیم الشان منصوبے پر  بند کرانے کی کوشش کی ۔ اس پر بھی نیب یا کوئی اور ادارہ حرکت میں نہیں آیا ۔ ویسے اگر کوئی ادارہ ایکشن لینے کی جسارت کرتا تو عدلیہ نے فوراً نوٹس لے کر الٹا اس کا مکو ٹھپ دینا تھا ۔تو کیا ان حالات میں یہ بہتر نہ ہوگا کہ قانون کی حاکمیت کا اصل تصور مد نظر رکھتے ہوئے اسی نیب کے ذریعے تمام اداروں کا احتساب کیا جائے ۔ حکومت وقت نیب قوانین میں تبدیلی یا نیب کو سرے سے ختم کرنے کے مطالبات کرکے سیاسی مخالفین اور عدلیہ کو پوائنٹ سکورنگ کرنے کا موقع فراہم کرنے کے بجائے پورا زور اس بات پر لگائے کہ تمام اداروں کو نیب کے دائرہ کار میں لاکر ان کا احتساب کیا جائے ۔ یہ مسلمہ اصول ہے کہ چاہے لاکھ دعوے کیے جائیں فوج اور عدلیہ سمیت کوئی بھی ادارہ اپنا احتساب خود نہیں کرسکتا ۔ پھر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ وہ کون سے ہاتھ ہیں جو احتساب کے اداروں کو ہتھیار بنا کر سیاسی مخالفین اور عام شہریوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں ۔اصل مسئلہ نیب نہیں نیب کو استعمال کرنے والے ہاتھ ہیں جس کے باعث احتساب کا عمل داغدار ہو کر رہ گیا ہے ۔ جب ایک ہی ادارہ سب کا احتساب کرے گا تو پھر کو یہ کہنے کا موقع نہیں گا کہ اسے امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ لیکن اس کے لیے لازم ہے وہ ادارہ خواہ نیب ہی کیوں نہ ہو ، ہر طرح کی مداخلت سے پاک ہو اور کسی کا دبائو برداشت نہ کرے۔ حاضر سروس نہ سہی ریٹائرڈ ہی سہی ، صرف دو عدد سابق جرنیلوں اور دو ہی ججوں کا میرٹ پر احتساب ہوگیا تو ملک کی سمت درست ہوجائے گی ۔ ورنہ ہے تو وہ ملک ہے کہ جس میں اپوزیشن کے سینئر سیاستدان اور رکن قومی اسمبلی کی گاڑی میں خود اینٹی نارکوٹکس والوں نے پندرہ کلو ہیروئن رکھ کر اسے گرفتار کرلیا ، ججوں ، جرنیلوں سب کو پتہ تھا کہ یہ گھٹیا حربہ کس نے اور کیوں آزمایا ، اس کے باوجود ملزم کو جیل لے جاکر پھانسی کی کوٹھری میں ڈال دیا گیا ۔ وہ بندہ رہا ہوکر آج خود وفاقی وزیر داخلہ ہے مگر یہی جھوٹا مقدمہ اب بھی عدالت میں زیر سماعت ہے ۔ صرف اسی ایک واقعہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی حریفوں کے خلاف مقدمات کیسے بنتے ہیں ۔ جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والی ایک شخصیت  نے ترنگ میں کہہ دیااصل صادق اور امین ہم ہیں ، ہمارے کسی لیڈر کے خلاف کرپشن کا کوئی کیس نہیں ۔ ان کی ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی دیکھ کر عرض کرنا پڑا کہ ایسی خوش فہمیوں کو اپنے دل و دماغ میں جگہ نہ ہی دیں تو بہتر ہوگا ۔ جماعت اسلامی مالکان ملک و ملت کے لیے سیاسی حوالے سے کوئی خطرہ نہیں ۔ اگر وہ آپ کی جماعت کو بھی خطرہ محسوس کریں تو پوری قیادت پر کیس بنا سکتے ہیں ۔  ان پر تو اور بھی زیادہ جو ماضی میں مختلف حکومتوں کا حصہ رہے ہیں۔ پاکستان میں مقدمہ بنانے کے لیے جرم کی ضرورت نہیں ۔ طاقتور حلقے جب چاہیں ، جس پر چاہیں ، کوئی بھی کیس بنا سکتے ہیں ۔ کیونکہ ان کو یقین ہے کہ کوئی بھی ان کا احتساب کرنے کی ہمت نہیں کرے گا ۔ پاکستان میں جعلی مقدمات بنانے کی گھناؤنی رسم کا خاتمہ بھی اسی روز ہوگا جب یہ محکمے بھی احتساب کی گرفت میں آجائیں گے ۔

مصنف کے بارے میں