محبت کی شادیوں سے نفرت کا سفر

محبت کی شادیوں سے نفرت کا سفر

ایک طوائف کی بیٹی جوان ہوئی تو ایک دن اپنی ماں سے پوچھنے لگی کہ اماں محبت کیا ہوتی ہے؟ طوائف جل کر بولی پگلی مفت عیاشی کے بہانے ہمارے ہاں زیادہ تر محبت کی شادیاں نفر ت کی طلاقوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں لیکن پھر بھی دھڑا دھڑ محبتیں اور ٹھکا ٹھک طلاقیں جاری ہیں ایسا لگتا ہے کہ محبت سے نفرت کا سفر ایک شادی کی مار ہوتا ہے۔

کتنی عجیب بات ہے کہ لڑکا لڑکی اگر ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو جائیں تو ان کی محبت بڑھنے کی بجائے دن بدن کم ہوتی چلی جاتی ہے

ان کو ایک دوسرے سے اکتاہٹ محسوس ہونے لگتی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ محبت کا آغاز خوبصورت اور انجام بھیانک نکلتا ہے آخرایک دوسرے کی خاطر مرنے کے دعوے کرنے والے ایک دوسرے کو مارنے پر کیوں تل جاتے ہیں۔  وجہ بہت آسان ہے بلبل کا بچہ کھچڑی بھی کھاتا تھا پانی بھی پیتا تھا گانے بھی گاتا تھا لیکن جب اسے اڑایا تو پھر واپس نہ آیا۔ اس لیے کہ محبت آزادی سے ہوتی ہے قید سے نہیں۔

ہمارے ہاں متضاد حساب ہے جونہی کسی لڑکے کو کسی لڑکی سے محبت ہوتی ہے ساتھ ہی ایک عجیب قسم کی قید شروع ہوجاتی ہے

لڑکیوں کی فرمائشیں کچھ یوں ہوتی ہیں اب تم نے روز مجھے رات آٹھ بجے چاند کی طرف دیکھ کر آئی لو یو کا میسج کرنا ہے۔ اب ہم چونکہ ایک دوسرے سے محبت کرنے لگے ہیں لٰہذا ہر بات میں مجھ سے مشورہ کرنا، روز انہ کم ازکم پانچ منٹ کے لیے فون ضرور کرنا،  میں مسڈ کال دوں تو فوراً مجھے کال بیک کرنا فیس بک پر روز مجھے کوئی رومانٹک سا میسج ضرور بھیجنا۔لڑکوں کی فرمائشیں کچھ یوں ہوتی ہیں۔  جان اب تم نے اپنے کسی Male کزن سے بات نہیں کرنی،  کپڑے خریدتے وقت صرف میری مرضی کا کلر خریدنا، وعدہ کرو کہ بے شک تمہارے گھر میں آگ ہی کیوں نہ لگی ہو تم میرے میسج کا جواب ضرور دو گی۔ جان شاپنگ کے لیے زیادہ باہر نہ نکلاکرو‘ مجھے اچھا نہیں لگتا۔

محبت کے ابتدائی دنوں میں یہ قید بھی بڑی خمار آلود لگتی ہے‘ لیکن جوں جوں دن گذرتے جاتے ہیں دونوں طرف کی فرمائشیں بڑھتے بڑھتے پہلے ڈیوٹی بنتی ہیں پھر ضد اور پھر آنا کا روپ دھار لیتی ہیں اور پھر آہستہ آہستہ نفرت میں ڈھلنے لگتی ہیں۔ اسی دوران اگر لڑکے لڑکی کی شادی ہوجائے تو رہی سہی کسر بھی پوری ہو جاتی ہے۔ میری ذاتی رائے میں محبت آسانیاں پیدا کرنے کا نام ہے لیکن ہم لوگ اسے مشکلات کا گڑھ بنا دیتے ہیں۔

غور کیجئے ہمیں جن سے محبت ہوتی ہے ہم جگہ جگہ ان کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں ہم اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے اپنا پیٹ کاٹ کر سکول کی فیس دیتے ہیں خود بھوکے بھی رہنا پڑے تو اولاد کے لیے کھانا ضرور لے کرآتے ہیں،  لائٹ چلی جائے تو آدھی رات کو اپنی نیند برباد کرکے ہاتھ والا پنکھا پکڑ کر بچوں کو ہوا دینے لگتے ہیں۔  ہم بے شک جتنے مرضی ایماندار ہوں لیکن اپنے بچے کی سفارش کرنی پڑے تو سارے اصول بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔  یہ ساری آسانیاں ہوتی ہیں جو ہم اپنی فیملی کو دے رہے ہوتے ہیں کیونکہ ہمیں اْن سے محبت ہوتی ہے۔

 ہم اپنے جن دوستوں سے محبت کرتے ہیں ان کے لیے بھی آسانیاں پیدا کرتے ہیں‘اللہ تعالیٰ بھی چونکہ اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے اس لیے ان کے لیے جا بجا آسانیاں پیدا کرتا ہے۔

مجھے محبت میں گرفتار ہونے والے بالکل بھی پسند نہیں محبت گرفتاری نہیں رہائی ہے ٹینشن سے رہائی تنہائی سے رہائی مایوسی سے رہائی۔

 وہ محبت کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جہاں شکوے شکایتیں اور طعنے شامل ہو جائیں۔ ایسے لوگ بدقسمت ہیں جو محبت کرنا نہیں جانتے لیکن محبت کر بیٹھتے ہیں اور پھر دوسرے کو اتنا بددل کر دیتے ہیں کہ وہ محبت سے ہی انکاری ہو جاتا ہے۔

کیا وجہ ہے کہ محبت کی شادی کرنے والے اکثر جوڑوں کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد اس رستے پر نہ چلے۔ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ ہم میں سے اکثر نے صرف محبت کا نام سنا ہے اس کے تقاضوں سے واقف نہیں۔ ہمیں کوئی پسند آجائے تو ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس سے محبت ہو گئی ہے۔ پسند آنے اور محبت ہونے میں بڑا فرق ہے کسی کو پسند کرنا محبت نہیں ہوتا لیکن محبت تک پہنچنے کے لیے پہلا زینہ ضرور ہوتا ہے۔میں نے بے شمار لوگوں کو انا کے خول میں لپٹے محبت کرتے دیکھا ہے یہ محبت میں بھی اپنی برتری چاہتے ہیں ان کے نزدیک محبت میں بھی سٹیٹس ہوتا ہے حالانکہ محبت میں تو محمود و ایاز کی طرح ایک ہونا پڑتا ہے رہ گئی بات انا کی تو یہ وقتی سکون تو دے دیتی ہے لیکن اِس کمبخت کے سائیڈ ایفیکٹس بہت ہیں۔

محمد نواز بشیر  کالم نگار اور بلاگرہیں     
nawaz.fm51@yahoo.com