چینی کا استعمال جگر اور ذیابطیس کی بیماری کا باعث

Consumption of sugar causes liver and diabetes
کیپشن: فائل فوٹو

لاہور: طبی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ چینی کا زیادہ استعمال جگر اور ذیابطیس کی بیماری کا باعث بن سکتا ہے۔

یہ تحقیق سوئٹزرلینڈ کے طبی ماہرین کے تجربات سے سامنے آئی ہے۔ سوئس سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ چینی زیادہ کھانے سے ناصرف انسانی وزن میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ انھیں دیگر امراض میں بھی مبتلا کر دیتا ہے۔

میٹھا کھانے کی عادت انسان کو سستی اور کاہلی میں مبتلا کر دیتی ہے جس سے توند نکلنے کی بیماری عام ہے۔ توند نکلنا اور جسمانی وزن میں اضافہ ہی دیگر بیماریوں کو انسانی جسم پر حملہ آور ہونے کی اجازت دیتا ہے۔

سوئس سائنسدانوں نے اس اہم مسئلے پر جو تحقیق کی اس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ زیادہ میٹھا کھانے سے جگر پر چربی چڑھ جاتی ہے، جس کی وجہ سے اسے اپنا کام صحیح طریقے سے سرانجام دینے میں مشکل آتی ہے۔ جب جگر درست طریقے سے خون نہیں بناتا تو دیگر بیماریاں انسانی جسم کا حصہ بن جاتی ہیں۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی زیادہ استعمال کرنے والے افراد میں ان بیماریوں کا حملہ فوری طور پر نہیں ہوتا بلکہ طویل عرصہ سے پرہیز نہ کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔

ڈاکٹروں نے اپنی اس تحقیق کیلئے سینکڑوں ایسے نوجوانوں کو منتخب کیا جو صحتمند اور تندرست تھے۔ انھیں سات ہفتوں تک صرف ایسا شربت پلایا گیا جس میں چیی کی مقدار زیادہ تھی۔ تاہم اس کیساتھ ایسے نوجوانوں کا گروپ بھی بنایا گیا تھا جنھیں یہ مشروب پینے کیلئے نہیں دیا گیا۔ 

یہ مشروب پینے والے نوجوانوں کو پیٹ بھرنے کا احساس ہوتا تھا، اس کی وجہ سے انھیں کوئی اور چیز کھانے کا دل نہیں کرتا تھا۔ اس عمل سے آہستہ آہستہ یہ ہوا کہ صرف سات ہفتوں کے اندر اندر ان کے جگر پر چربی کی تہہ چڑھنا شروع ہو گئی۔

ماہرین اپنے اس تجربے سے حیران ہو گئے کہ انسانی جسم پر مضر اثرات مرتب کرنے کیلئے عام چینی ہی کافی ہے جو ہم روزمرہ استعمال میں لاتے ہیں۔ میٹھا مشروب پینے والے ان نوجوانوں میں جگر کی بیماریوں کیساتھ ساتھ ذیابطیس کا خطرہ بھی بڑھ گیا۔

یہ بات ذہن میں رہے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے صرف پچیس سے پچاس گرام تک ہی روزانہ میٹھی اشیا استعمال کرنے کا مشورہ دیا ہے، اس سے زیادہ مقدار انسانی جسم کیلئے نقصان دہ ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے دن بھر میں 25 سے 50 گرام تک چینی کا استعمال کرنے کا مشورہ دیا ہے، تاہم لوگ اس سے زیادہ ہی استعمال کرلیتے ہیں۔