عمران خان کی گرفتاری: کیا پالیسی میٹر ہے!

عمران خان کی گرفتاری: کیا پالیسی میٹر ہے!

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان صاحب کی گرفتاری کو لے کر گزشتہ کئی روز سے پورے ملک میں ایک ہیجان کی سی کیفیت ہے۔ خان صاحب، ان کے پارٹی راہنما اور کارکن اس بات پر خوش ہیں اور بغلیں بجا رہے ہیں کہ انہوں نے پولیس فورس اور رینجرز کے دستوں کو شکست دے کر عمران خان کی گرفتاری کو کوشش کو ناکام بنا دیا۔ لیکن سوائے ڈاکٹر یاسمین راشد کے کوئی بھی اس پہلو پر غور نہیں کر رہا کہ کیا حکومت کی جانب سے انتہائی ڈھیلے ڈھالے انداز میں آپریشن کرنا اور اس سلسلہ میں مسلسل خاموشی اختیار کیے رکھنا اور کسی بھی قسم کا کوئی ردعمل نہ دینا کسی منصوبہ بندی کی خبر تو نہیں دے رہا ہے۔
انتہائی سادہ اور عام فہم سی بات ہے کہ جس دن پولیس عمران خان کو گرفتار کرنے زمان پارک کی طرف گئی اس دن وہاں پر جن لوگوں کی جانب سے مزاحمت پیش کی گئی ان کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق دو، اڑھائی سوزیادہ نہیں تھی۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ کیا پنجاب پولیس واقعی اس قدر نااہل ہے کہ وہ ان مٹھی بھر کارکنان پر قابو پا کر عدالتی حکم پر عملدارآمد نہ کرا سکے؟ 
پنجاب پولیس کی ناکامی اور بے بسی کے بعد جب رینجرز کی انٹری ہوئی تو امید تھی کہ اب تو صورتحال ہر طرح سے قابو میں آ جائے گی۔ لیکن افسوس کہ ایسانہ ہو سکا اور دو دن اسی دھینگا مشتی میں ہی ضائع ہو گئے۔ 
کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب پولیس کو عمران خان صاحب کی زمان پارک والی رہائشگاہ میں داخلے کے لیے وہاں پر تعینات گلگت  بلتستان  کے پولیس کمانڈوز کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ممکن ہے ایسا ہوا بھی ہو۔لیکن اگر واقعی ایسا ہوا ہے تو کیا یہ پنجاب پولیس اور انتظامیہ کے منہ پر ایک زناٹے دار تھپڑ نہیں کہ کسی دوسرے صوبے سے آئے ہوئے چند پولیس اہلکاروں نے اتنے بڑے صوبے کی انتظامیہ کو بے بس کر کے رکھ دیا۔
 پولیس کی بات چھوڑیں، ہر طرح کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے خصوصی تربیت یافتہ ہمارے رینجرز نے تو بالکل ہی مایوس کر دیا۔ یقینا ہمسایہ ملک بھارت میں بھی اس صورتحال کو غور سے دیکھا جا رہا ہو گا اور ان پر ہمارے رینجرز کی صلاحیتوں کی قلعی بھی کھل رہی ہو گی۔ وہ یقینا یہ سوچ رہے ہوں گے کہ بے شک واہگہ اور گنڈہ سنگھ بارڈرز پر پریڈ کے دوران رینجرز کے جوان زیادہ اونچی ٹانگ تو ضرور اٹھاتے ہیں لیکن ان کی حقیقت یہ ہے کہ وہ حکومت کی جانب سے دیا گیا ایک معمولی سا ٹاسک بھی مکمل کرنے میں خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں۔ 
اس ساری صورتحال میں جانے کون کس کے خلاف سازش کر رہا ہے اور اس میں کتنا کامیاب ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان بطور ریاست تماشا بن کے رہ گیا ہے۔ ان معاملات میں سیاسی پارٹیوں،  ریاست اور سکیورٹی فورسز کی ناکامی کے ساتھ ساتھ ہمیں تمام تر عزت اور احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ ہماری معزز عدلیہ کے دل میں اپنے ہی احکامات کو ہوا میں اڑا دینے والوں کے لیے اس قدرنرم گوشہ کیوں ہے؟ اگر قانون سب کے لیے برابر ہے تو کسی فرد واحد کو بار بار رعایتیں کیوں دی جاتی ہیں؟ کوئی عام آدمی تو عبوری ضمانت کی کنفرمیشن کے لیے پہنچنے میں چند منٹ بھی لیٹ ہو جائے تو اسے ضمانت کی منسوخی کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن کسی ایک شخص کے لیے عدالتیں پورا پورا دن انتظار کیوں کرتی ہیں اور اسے مختلف قسم کی آپشنز کیوں دی جاتی ہیں؟ 
ایک طرف تو خا ن صاحب اور ان کی جماعت کسی ایک موقع پر پولیس کو پسپا کر کے اور عدلیہ سے عاضی قسم کا ریلیف لے کر خوش ہیں تو دوسری طرف حکومت چپ چاپ اپنی منصوبہ بندی پر عمل کرتی نظر آتی ہے۔ شائد وہ اس فوجی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں جس کے مطابق اگر اس پلاننگ کے تحت پسپائی اختیار کی جائے کہ دوسری طرف سے جا کر حملہ کرنا ہے تو اسے کسی بھی طور پسپائی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ 
 الیکشن تو شائد کسی اور صورتحال میں بھی مشکل ہی ہوں لیکن فی الحال تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دو صوبائی اسمبلیوں کے لیے انتخابات کی تاریخوں کے اعلان کے باوجود حکومت کا فوری طور پر ملک میں کسی بھی قسم کا الیکشن کرانے کا کوئی ارادہ نہیں۔ اور وہ اس سلسلہ میں اپنی پہلی پلاننگ میں ہی خاصے کامیاب نظر آتے ہیں جس کے تحت ان کی کوشش تھی کہ عمران خان صاحب اور ان کی پارٹی کی جذباتی سوچ او ر  رویوں کو انہیں کے خلاف استعمال کرتے ہوئے کوئی ایسی صورتحال پیدا کر دی جائے کہ امن امان کے نام پر یہ تاخیر ممکن ہو سکے۔ اب تک تو پاکستان تحریک انصاف اس ٹریپ میں پوری طرح پھنستی ہوئی نظر آتی ہے اور اگر ڈاکٹر یاسمین راشد جیسے کسی راہنما کی سنی گئی تو ہی اس سے بچاؤ ممکن ہے۔ 
 پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو اس پہلو پر بھی باقاعدہ غور کرنا چاہیے کہ یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک بڑی تعداد میں پنجاب پولیس جنہیں رینجرز کی پشت پناہی بھی حاصل ہو وہ دو اڑھائی سو سیاسی کارکنوں کے آگے بے بس ہو جائیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ یہی پنجاب پولیس جب اپنی آئی پر آتی ہے تو ہزاروں کے مجمع کو بھی تتر بتر ہوتے ہوئے زیادہ دیر نہیں لگتی۔ ابھی کچھ ہی عرصہ قبل عمران خان صاحب کے اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کے دعوے کا جو حشر ہوا تھا وہ ہمیں اچھی طرح یاد ہے۔ وہ تو بھلا ہو معزز عدلیہ کا کہ جنہوں نے خان صاحب کی پارٹی کو ایک محفوظ راستہ فراہم کر دیا ورنہ ان کی سیاسی عزت کا تو اسی دن دیوالیہ نکل گیا ہوتا۔ 
خان صاحب کو ایک بات بالکل کھلے دماغ کے ساتھ سمجھ لینی چاہیے کہ ملک میں الیکشن تو کسی پالیسی کے تحت ہی ہوں گے، بہتر ہو گا کہ وہ اس سلسلہ میں اپنے مطالبات منوانے کے لیے پر امن راستے اپنائیں۔ اس ہلڑ بازی، افراتفری اور انتشار کی پالیسی سے انہیں تو کوئی سیاسی حصول نہیں ہو گا البتہ ملک بدامنی کا شکار ضرور ہو جائے گا۔