جمہور کو ماننے کا ظرف

جمہور کو ماننے کا ظرف

سیاست کی گہما گہمی نے ماحول کو عجیب بنا دیا ہے اس لیے کہ جو کچھ جس نوعیت سے ہو رہا ہے وہ سیاست نہیں بلکہ ذاتی عناد و دشمنی زیادہ محسوس ہو رہی ہے۔ یہ اچھی علامات نہیں اور یہ بھی پہلی بار ہی ہو رہا کہ تیرہ سیاسی جماعتوں کا اتحاد ایک یادوسیاسی جماعتوں کے خلاف احتجاجی کیفیت میں ہے۔فیصلہ کیاہے پی ڈی ایم اور اس کے اتحادیوں نے کہ کچھ بھی ہوجائے عمران خان سیاست میں انہیں گوارا نہیں، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ عمران خان کی عوامی مقبولیت اس اتحاد کے لیے سب سے بڑامسئلہ ہے۔ ہم جمہوریت کاورد کرتے ہی اور ہرپل کرتے ہیں لیکن جمہور کی بات کوماننے کاحوصلہ اور ظرف ہمارے پاس نہیں ہے۔جمہور کیا چاہتے ہیں اس سے ہماری سیاسی جماعتوں کوکیاغرض؟عدم اعتماد کے بعدسے اب تک کی صورت حال کاجائزہ لیاجائے توکچھ باتیں واضح ہوتی ہیں کہ موجودہ حکومت نے طاقت توبہت حاصل کی اپنے مخالفین کے خلاف مقدمات بھی فرض اول سمجھ کرنبھایالیکن عوام سے دوری بڑھتی گئی،عوام کے ساتھ جواس اتحادی حکومت نے کیاہے اس کی جتنی بھی وضاحتیں دی اور پریس کانفرنسز کی جائیں اور عمران خان کو موردالزام ٹھہرایا جائے، اب عوام یہ بات ماننے پرتیارنہیں ہیں۔اس لیے کہ سوشل میڈیاکے دور میں حقائق کوچھپاناآسان نہیں ہے،یہ اسی یا نوے کی دہائی نہیں ہے یہ بات اتحادی حکومت کوسمجھ نہیں آرہی یاوہ سمجھنانہیں چاہتے،اس کیے کہ انہیں لگتا ہے کہ اس طرح لوگوں کوڈراکریادباکراپنے مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہی جب کہ ایسا ممکن ہے۔ سیاسی 
صورت حال کشمکش کی شکل اختیار کر گئی ہے آئین وقانون کے ساتھ اپی مرضی کابرتاؤکرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔دوصوبوں کی اسمبلیاں ٹوٹیں تو الیکشن کے انعقاد کے لیے سپریم کورٹ سے رابطہ کرکے الیکشن اناؤنس کرانا پڑے، مطلب یہ کہ سیاسی جماعتیں اس قدر انانیت کاشکار ہیں کہ ہرفیصلہ عدالتوں ہی کے ذریعے ہو رہا ہے، مزے کی بات یہ ہے کہ نوے دن کے اندر الیکشن کے سپریم کورٹ کے احکامات کوبھی ماننے میں پس وپیش سے کام لیاجارہاہے اوراس سارے معاملے میں حکومت کا کردار نہایت عجیب اورحیرت انگیز ہے۔
پنجاب کی انتظامیہ کا کام یہی رہ گیا ہے؟ پی ٹی آئی ریلی یاجلسے کااعلان کرے رات گئے دفعہ 144نافذکرکے اسے سیاسی سرگرمیوں سے روکا جائے جب کہ اس کے برعکس دوسری جماعتوں کے قائدین کوسرکاری پروٹوکول میں تمام سرگرمیوں کی اجازت ہو۔اس طرح جمہوریت چلتی ہے؟اس طرح جمہوریت کا تحفظ ہوتا ہے؟ جمہور کی آواز کوسننے کی سکت ضروری ہے لیکن ہماری سیاسی روایت میں اس نوعیت کی کسی رسم کی گنجائش نظر نہیں آتی بلکہ جمہوریت کے سائے میں آمرانہ نظام کوفروغ دے کراپنی طاقت وتوانائی کوعوام کی فلاح وترقی کے لیے استعمال کرنے کے بجائے،مخالفین کے خلاف استعمال کر کے عوام کی بہترین خدمت کی جا رہی ہے۔ غربت وافلاس میں پسے عوام اس کھیل میں سب سے اہم ہو کر بھی غیراہم ہیں۔ الیکشن کے اعلان کے بعد ہمارے سیاسی کلچر میں سیاسی سرگرمیاں شروع ہونا معمول کی بات ہے، انتظامیہ کا کام خود پارٹی بننا نہیں ہوتا بلکہ سیاسی جماعتوں کے لیے سازگار سیاسی ماحول مہیا کرنا ہوتا ہے اور کمال کی بات تویہ ہے کہ وفاقی وزرا اس قسم کے اقدامات کوٹی وی چینلز کے ٹاک شوز یاپریس کانفرنس میں دفاع کرتے ہیں جو اس تعلق کی مضبوطی پرمہر لگاتے ہیں۔ کسی بھی سیاسی جماعت کی سیاسی سرگرمیوں کوروک کرعوام کے دل سے اس کی مقبولیت کوکم نہیں کیاجاسکتااس لیے کہ اس طرح کے اقدامات اس سیاسی جماعت کی مزید مضبوطی کاذریعہ بن جاتے ہیں۔دوبار عمران خان نے ریلی کوملتوی کیالیکن سارادن میڈیااسی ریلی کے حوالے سے بات کرتارہا اس طرح خان صاحب کی سیاسی سرگرمی توہوگئی۔سیاست کواس سطح تک نہیں لے جاناچاہیے،عوام کے پاس جمہوریت کومضبوط کرنے کاحق ہونا چاہیے۔ وفاقی حکومت کے اقدامات سے عوام خوش نہیں ہیں اس لیے کہ مہنگائی کے خاتمے کے لیے آنے والی حکومت نے عوام کا جو حال کیاہے وہ سب کے سامنے ہے۔عمران خان اس وقت سیاست کے محور ہیں یہ بہت بڑی حقیقت ہے،ان کی کوئی مخالفت کرے یاان کے حق میں بات کرے مگر یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ اس وقت سیاست میں سب سے نمایاں کردارعمران خان ہی کا ہے۔ قسمت بھی پوری طرح ان کے ساتھ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جوبھی انہوں نے کہا وہ جلد یابدیر ثابت ہوا۔ الیکشن کمیشن کے بارے میں ان کی رائے جو تھی وہ الیکشن کمیشن کے رویے سے واضح ہو گئی۔ حکومت اور اتحادی جماعتیں الیکشن سے فرارکاہر راستا اختیار کرنے کے لیے کوشاں ہیں اس سلسلے میں انتظامی بلکہ حساس اداروں تک کو معاملات میں گھسیٹا جا رہا ہے جبکہ اصولی طور پر تو آئین اور عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق 90 دن میں انتخابات ہونا ہیں اور یہی حقیقت ہے۔