سیاسی بے یقینی اور نوجوان!

سیاسی بے یقینی اور نوجوان!

ملک کے معاشی اور سیاسی منظرنامے پر ایک نگاہ ڈالیں۔ حالات مایوس کن ہیں۔ امید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی۔کسی بھی حوالے سے کوئی اچھی خبر سننے کو نہیں ملتی۔ ملکی حالات پر جتنا غور کرتے جائیں، یہ یقین گہرا ہوتا جاتا ہے کہ موجودہ صورتحال میں بہتری کے امکانات نہایت محدود ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہیں ہو گا کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان کے حالات خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، بد امنی، لاقانونیت اپنے عروج پر ہے۔ کسی بھی محفل میں بیٹھیں، لوگوں کی گفتگو سے تشویش اور مایوسی جھلکتی ہے۔ حالات اس نہج تک جا پہنچے ہیں کہ مجھ جیسے جو تھوڑا بہت پڑھ لکھ کر فارغ ہو چکے ہیں۔ جنہیں رزق روزی کے حوالے سے بھی زیادہ فکر مند ی نہیں، ان پر بھی حالات کی بے یقینی نے نہایت منفی اثرات مرتب کر رکھے ہیں۔ وہ بھی ان بے یقین ان حالات سے فرار چاہتے ہیں۔ 
چند دن پہلے ایک سروے میری نگاہ سے گزرا۔ اس میں یہ جائزہ لیا گیا تھا کہ کتنے فیصد نوجوان پاکستان کو چھوڑ کر بیرون ملک جانا چاہتے ہیں۔ نتائج کے مطابق تقریبا67 فیصد نوجوان اچھے روزگار اور اچھے مستقبل کی تلاش میں پاکستان چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں آ باد ہو نا چاہتے ہیں۔عمومی طور پر مختلف موضوعات پر ہونے والے سروے اور ان کے نتائج میری دلچسپی کا مرکز ہوتے ہیں۔ اکثر سروے ایسے ہوتے ہیں جن کے نتائج میرے لئے باعث حیرت ہوتے۔ لیکن مذکورہ سروے کے نتائج میرے لئے بالکل بھی حیران کن نہیں تھے۔ وجہ یہ کہ میں اس صورتحال سے آگاہ ہوں۔ شعبہ تدریس سے منسلک ہونے کی وجہ سے میرا نوجوانوں سے رابطہ رہتا ہے۔ خاص طور پر وہ نوجوان جو یونیورسٹی کی سطح کی تعلیم پر پہنچ گئے ہوتے ہیں۔یہ نوجوان  اپنے ارد گرد ہونے والی تبدیلیوں سے آ گاہ ہوتے ہیں۔ اپنے مستقبل کے بارے میں غور و فکر میں مصروف رہتے ہیں۔ یقین جانیے ملکی حالات کی بے یقینی ان پر طاری رہتی ہے۔ بیشتر نوجوان اس ملک سے دور کسی دوسرے ملک میں بسنے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس ملک میں ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ زیادہ تر کو لگتا ہے کہ ایک تو اس ملک میں اچھی نوکری کا حصول سفارش کے بغیر نا ممکن ہے (اگرچہ مجھے ان کے اس نقطہ نظر سے اختلاف رہتا ہے)۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس ملک میں سرمایہ کاری کر کے کاروبار شرو ع کرنا بھی گھاٹے کا سودا ہے۔ اس کی وجہ حالات کی بے یقینی ہے۔نوجوانوں کا خیال ہے کہ وہ اپنے ملک میں دس بارہ سال محنت کر کے وہ کچھ نہیں پا سکتے جو وہ بیرون ملک دو تین سال کی محنت سے حاصل کر لیں گے۔ 
یہ محض زیر تعلیم نوجوانوں کا قصہ نہیں ہے۔ اچھے بھلے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد، جو سرکار ی یا نجی اداروں میں مناسب نوکریاں کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ بھی اس ملک سے نکلنے کے لئے کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2022 میں کم وبیش 80 ہزار پاکستانی ہنر مند ملک چھوڑ کر بیرون ملک چلے گئے۔  یہ خبریں بھی اکثر پڑھنے کو ملتی ہیں کہ غیر قانونی تارکین کی کشتی ڈوب جانے سے درجنوں افراد ہلاک ہو گئے۔ کہیں بیرون ملک جانے کے چکر میں کنٹینروں میں دم گھٹنے سے بیسیوں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ابھی دو تین ہفتے پہلے کی بات ہے کہ پاکستانیوں سمیت 59 افراد غیر قانونی طور پر بیرون ملک جاتے ہوئے کشتی ڈوبنے سے ہلاک ہو گئے۔ ہر چند مہینوں کے بعد ایسی ہولناک خبریں آتی ہیں۔ یہ صورتحال بھی ہم نے دیکھی ہے کہ لوگ اپنے مکان، جائیداد یں، کھیت، اور عمر بھر کی جمع پونجی داو پرلگا کر ایجنٹوں کو لاکھوں روپے کی رقم دے کر بیرون ملک پہنچتے ہیں۔ کچھ تو اپنی منزل مقصود پا لیتے ہیں اور کچھ فراڈ کا شکار ہو کر اپنی عمر بھر کی کمائی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ 
 اس افسوسناک صورتحال پر غور ہونا چاہیے۔ لیکن غور کرنے کی فرصت کسے ہے۔ یہاں تو ہمارے اہل سیاست باہم دست و گریبان ہیں۔ زمان پارک میں پچھلے چند دن سے جو تماشا جاری ہے وہ ہم سب دیکھ رہے ہیں۔ یعنی عدالت میں پیشی سے بچنے کے لئے سارے شہر کی پولیس اور نوجوانوں کو دنگا فساد میں مصروف کر دیا گیا ہے۔ عمران خان قانون کی حکمرانی کی بات کرتے ہیں لیکن عدالت کے سامنے پیش ہونے پر آمادہ نہیں۔ ساری دنیا میڈیا کے ذریعے پاکستان میں لگا تماشا دیکھ رہی ہے۔ کسی کو خیال نہیں آ رہا کہ قانون کی حکمرانی، عدالتوں کے احترام اور ملکی حالات کومدنظر رکھتے ہوئے تحمل اور بردباری کا مظاہری کیا جائے۔ 
ہم جانتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی معاشی اور سیاسی صورتحال آپس میں جڑی ہوئی ہوتی ہیں۔ وہ ممالک جہاں سیاسی عدم استحکام کی کیفیت ہو۔ سیاسی افراتفری ہو۔ سیاسی بے یقینی کی فضا ہو۔ ایسے ممالک میں معیشت پھل پھول نہیں  سکتی۔ یہی کچھ پاکستان میں 2014 کے دھرے کے دوران ہوا تھا۔ آ ج پھر یہی سیاسی کھیل جاری ہے۔اللہ پاک ہمارے ملک اور عوام پر رحم فرمائے۔