زین عباس :سوال ہی سوال ہیں

زین عباس :سوال ہی سوال ہیں

زین عباس ٹانڈہ ضلع گجرات کا رہائشی تھا‘وہ نظم کا ایک شاندار شاعر ‘ انتہائی ذہین مارکسسٹ اور گریجوایشن کا طالب علم تھا۔ہفتے کی صبح چار بجے اپنے ہاسٹل کے کمرے کی دیوار پر یہ ادھوری سطر لکھی’’یہ راقم کی آخری رات ہے‘‘اور پنکھے سے لٹک کر جان دے دی ،یوں اس نے خود کو سیفو، ارنسٹ ہیمنگوے،ورجینیا وولف،ایڈگراایلن پو،این سیکسٹن،مایا کوسکی،رضا کمال شہزاد،صادق ہدایت،  فرخی یزدی،شکیب جلالی، ثروت حسین، آنس معین، منظور جمشید اوراسامہ جمشیدکی فہرست میں شامل کر لیا اور اپنے پیچھے اپنے قارئین کے لیے سیکڑوں سوال چھوڑ گیا‘بالکل ایسے جیسے اس کی نظم ’’سوال ہی سوال ہیں‘‘ہے۔زین عباس کو کیا سوجھی اور اس کے کیا مسائل تھے‘یہ بالکل الگ بحث ہے اور اس پر اس لیے بھی بات نہیں کرنا چاہتا کہ میرے پاس کسی طرح کے حقائق نہیں مگر میں ان سوالوں کو ضرور دوہرانا چاہتا ہوں جو میںہمیشہ اس موضوع(خودکشی) پر لکھتے ہوئے اٹھاتا ہوں۔ میری زندگی میں یہ تیسراس واقعہ ہے جب ایک نوجوان تخلیق کار نے اپنی جان دی اور میں تینوں سے کسی نہ کسی حوالے سے رابطے میں تھا۔میں حیران ہوں کہ آج کا نوجوان تخلیق کار اس دنیا‘نظام اور لوگوں سے کیوں اس قدر مایوس ہو چکا ہے کہ وہ موت کو زندگی پر ترجیح دے رہا ہے۔کیا ان تینوں کے گھریلو مسائل تھے‘کیا ان تینوں کے ارد گرد ماحول ایسا تھا ‘کیا ان کے حلقہ احباب نے انھیں زندگی کی جمالیات کا درس دینے کی بجائے محض ایک مایوس اور اندھیری دنیا کے بارے خوفناک قصے کہانیاں سنا رکھے تھے‘یا انھوں نے شکیب و ثروت کی طرح موت کے درندے میں کشش محسوس کی اور خودکشی کے آپشن کو زیادہ بہتر محسوس کیا۔میری زین سے محض چار ملاقاتیں ہوئیں‘ایک ٹائون شپ میں چائے کے ہوٹل پر‘دوسری پاک ٹی ہائوس‘تیسری اور چوتھی منہاج القرآن کے سالانہ مشاعروں میں۔اس سے زیادہ زین سے میری نہ ملاقاتیں ہیں اور نہ ہی اس کی 
ذات اور مسائل کے بارے مجھے کچھ علم ہے۔یہی وجہ ہے کہ مجھے اس کالم کے ذریعے محض اس کے دوستوں اور محبت کرنے والوں سے تعزیت کرنی ہے اور ملک بھر کی ادبی‘سماجی اور مذہبی تنظیموں سے گزارش کرنی ہے کہ خودکشی کے موضوع پر کھل کر بات ہونی چاہیے‘ایک طرف ہمارے نوجوانوں کو میڈیائی دنیا نے بہت متعصب‘ متشدد اور بدتہذیب بنا دیا ہے‘دوسری طرف موجودہ سیاسی انتشار نے ہمارے اندر سے قوت برداشت بھی ختم کر دی ہے‘ایسے میں آپ کو اپنے ارد گرد ایسا ماحول فیس کرنا پڑ رہا ہے جس کا یہ معاشرہ اور ہم سب متحمل نہیں تھے۔ ایسا ماحول کیوں بنا دیا گیا ہے کہ ہمیں ’’مرو یا مار دو‘‘کے فارمولے پر عمل کرنا پر رہا ہے‘اس بارے سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔قارئین باتیں تو ہوتی رہیں گی‘آپ زین عباس کی چند نظمیں ملاحظہ فرمائیں اور خود سوچیں کہ کیسا شاندار شاعر چپ چاپ اس دنیا سے اٹھ گیا‘اپنے پیچھے سوالوں کا ایک انبار چھوڑ گیا‘اس کی اداس اور انقلابی نظمیں بھی سوال کرتی رہ گئیں اور آج اس کی موت بھی ایک سوال چھوڑ گئی کہ زین کا قاتل کون ہے؟،آپ زین کی نظمیں پڑھیں اور اس کے سوالوں کو سوچیں:
نظم :’’بندوق لاشے گن رہی تھی‘‘۔لہو آلود ہاتھوں سے ٹپکتے خون کے قطرے؍صلیبوں پر کھلی بانہوں کا نوحہ تھے؍کئی رستی ہوئی آنکھیں؍بدن کے چیتھڑوں اور گنگ آوازوں کی شاہد تھیں؍سڑک پر رینگتے کچھ گولیوں کے خول؍دیواروں پہ چپکے خون کے چھینٹوں کا ماتم تھے؍مری بندوق لاشے گن رہی تھی؍(یہ وہی خناک جوکر تھی؍فقط جو حکم کی رسی پہ چلتی تھی)؍لہو آلود وہ ننانوے۔۔۔!؍ننانوے لاشے مری گنتی میں چبھتے تھے؍اچانک؍جاگتی معصوم آنکھیں میری گنتی میں اتر آئیں؍ مرے منہ میں گزارش کپکپائی؍ ’’سر!یہاں چھ سال کی معصوم آنکھیںسانس لیتی ہیں‘‘؍مگر رسی اچانک تازیانہ بن کر میرے کان پر برسی؍مری بندوق میرے ساتھ چیخی؍سو۔۔۔!!!۔
نظم :’’پنجرہ‘‘۔فلک سے آتش برس رہی تھی؍ہوا زمیں پر خموش ٹھہری؍درندگی سے پرندگی تک؍سبھی زبانیں لٹک رہی تھیں؍سیاہ وردی میں لپٹا پنچھی؍مکانِ خستہ کے ٹھنڈے سائے میں آن پہنچا؍تو اس کی نظریں قفس میں جکڑے؍ہرے پرندے نے قید کر لیں؍پھر اسودی چونچ سے اچانک سوال پھسلا؍بتائو مٹھو !کہ تم سے کیسی خطا ہوئی ہے؟؍کہ زندگی سے پرندگی تک ؍تمہارا سب سلب ہوگیا ہے؍ہرے بدن کی وہ سرخ ہونٹوں نے بے بسی میں یہ کہا بس۔۔۔؍یہاں کوئی بھی جو بولتا ہے؍وہ قید میں ہے۔
اہم ترین نظم:’’سوال ہی سوال ہیں‘‘۔کٹی زبان پر سجا؍صلیب پر لٹک رہا؍زمین میں گڑا ہوا؍سناں پہ بولتا ہوا؍یہ کون ہے؍سوال ہے؍کہاں کہاں سوال ہے؟؍جہاں جہاں چراغ ہیں؍جہاں جہاں دماغ ہیں؍وہاں وہاں سوال ہیں؍زمین گر سوال ہے؍تو آسماں سوال ہے؍یہ سب جہاں سوال ہے؍زبان اور خیال کا وصال ہے؍سوال ہے؍تو شاعری سوال ہے؍یہ شاعری ہے زندگی؍یہ زندگی ہے شاعری؍تو زندگی سوال ہے؍یہ زندگی سوال ہے تو ہر گھڑی سوال ہے؍گھڑی سے روشنی کا رشتہ کیا کمال ہے؍سوال ہے؍یہ روشنی ہے آگہی؍تو آگہی ہے آدمی؍ہوں میں بھی ایک آدمی؍ہے تو بھی ایک آدمی؍سو آدمی سوال ہے؍جزا بھی اک سوال ہے؍سزا بھی ایک سوال ہے؍خدا خدا !؍خدا تو خود سوال ہے؍سوال ہی سوال ہیں؍لہو میں تربتر ہوئے سوال ہیں؍یہ پتھروں کی بستیوں میں بولتے سوال ہیں؍یہ غربتوں کی چکیوں میں پس رہے سوال ہیں؍جو پیر میں ہیں بیڑیاں؍سوال ہیں؍یہ بن بیاہی بیٹیاں سوال ہیں؍عقیدتوں کی آڑ میں جو پھٹ رہی ہیں جیکٹیں؍یہاں ہر ایک بولتی زبان کے نصیب میں ہیں بیرکیں؍محافظوں کی آہٹیں؍یہ بن بلائی دستکیں؍سوال ہیں؍لہو میں غرق ہچکیاں؍یہ رات کی ردا تلے جو اٹھ رہی ہیں سسکیاں؍سوال ہیں؍وہ جاگتے‘وہ سوچتے‘وہ بولتے؍وہ دیکھتے‘وہ روکتے؍وہ گمشدہ جو ہو گئے؍وہ لاپتہ سوال ہیں؍یہ جان لو؍جب اک سوال مر گیا؍تو سو سوال اٹھ گیا؍سوال سے ڈرو نہیں؍سوال کا جواب دو۔

مصنف کے بارے میں