حکمران اور افسران!

 حکمران اور افسران!

گزشتہ روز وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز شریف کا مجھے فون آیا۔کچھ روز پہلے بہت عرصے بعد وہ مجھے جناب مجیب الرحمان شامی کے گھر ملے تھے ،وہ اُن کے بھائی کے انتقال پرتعزیت کے لیے آئے تھے، جیسے ہی وہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے، میں نے شامی صاحب سے اجازت چاہی، حمزہ شہباز شریف نے بڑی محبت سے مجھے چند لمحے مزید بیٹھنے کے لیے کہا، میرے بھائی میاں عادل رشید بھی میرے ہمراہ تھے، مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ میں نے تو کبھی اُن کے یا اُن کی فیملی کے اُس طرح حق میں نہیں لکھا جِس طرح وہ پسند فرماتے ہیں، بلکہ اُن کی کچھ پالیسیوں پر ہمیشہ کھلے الفاظ میں تنقید ہی کرتارہا، اِس کے باوجود اُن کا مجھ سے اتنی محبت سے مِلنا میرے لیے حیرت انگیز تھا۔ اگلے روز جب اُن کا فون آیا، اُنہوں نے حال احوال پوچھا، میں نے اُن کے سیاسی اِرادے جاننے کی کوشش کی، اُنہوں نے فرمایا ’’فی الحال سیاسی ذمہ داریاں ہم نے اپنی بہن مریم نواز شریف کو سونپ دی ہیں، میری کوشش یہ ہے جو ذمہ داری بطور وزیراعلیٰ اللہ کے خصوصی فضل وکرم سے مجھے عطا کی گئی ہے میں اپنا سارا فوکس اُسی پر رکھوں، مجھے نہیں پتہ مستقبل قریب میں ملکی سیاست کیا رُخ اختیار کرتی ہے مگر بطور وزیراعلیٰ جتنا عرصہ میرے پاس ہے میری یہ بھرپور کوشش ہوگی پنجاب میں گزشتہ پونے چاربرسوں میں جو تباہی ہوئی ہے اُسے کم کرنے کے لیے انتہائی فعال کردار ادا کروں۔ وہی کردار جو بطور وزیراعلیٰ میرے والدِ محترم کی بھی خصوصیت رہی ہے، اور اب جبکہ وہ بیمارہیں اور اُن کی عمر بھی زیادہ ہوگئی ہے پھر بھی اُن کی یہ کوشش ہے جتنا عرصہ وہ وزیراعظم رہیں اپنی پوری توجہ عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے پر دیں‘‘…وزیراعلیٰ حمزہ شہباز شریف نے جلد تفصیلی ملاقات کی خواہش ظاہر کی، میں نے اُن کے نیک جذبوں کی تکمیل کے لیے دعا کی۔ فون بند ہوا میں نے سوچا ملکی حالات جس خطرناک سمت کی جانب بڑھ رہے ہیں، معاشی تباہی کے آخری مقام پرجِس طرح جاکر ہم کھڑے ہوگئے ہیں، اللہ جانے اِس نوجوان کو اپنے جذبات کے مطابق کام کرنے کا موقع مِلنا ہے یا نہیں ؟ مگر یہ اچھی بات ہے بطور وزیراعلیٰ وہ سیاست خصوصاً جلسوں وغیرہ کی سیاست سے خود کو ذرا الگ رکھ کے اپنا فوکس عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے پر رکھنا چاہتے ہیں، اگر وہ اِس میں کامیاب ہوگئے اُن کی زندگی میں بھی ضرور ایسا مقام آئے گا جب اُن کی مخالف سیاسی جماعت کا کوئی رُکن اسمبلی کِسی بوڑھی دیہاتی عورت کو کسی اور وزیراعلیٰ کا تعارف کرواتے ہوئے یہ سمجھا رہا ہوگا ’’اماں جی اے پنجاب دے حمزہ شہباز شریف لگے ہوئے نیں‘‘…مجھے اس بات کی بھی خوشی ہے سابقہ تقریباً ہرحکومت کی روایت کے مطابق یا عادت کے مطابق اُنہوں نے وزیراعلیٰ بنتے ہی انتظامی افسران کے تبادلوں کا ’’طوفان بدتمیزی‘‘ برپا نہیں کردیا، سوائے چند افسران کے پچھلی حکومت کے لگائے ہوئے افسران ہی ابھی تک اپنے عہدوں پر موجود ہیں، اور ظاہر ہے وہ سارے کے سارے کرپٹ اور بدمعاش نہیں ہیں، حالیہ سابقہ حکومت کے دورمیں جہاں بے شمار کرپٹ اور نااہل سول وپولیس افسران کو چُن چُن کر، صرف اِس لیے نوازا گیاکہ وہ نون لیگ کے خلاف تھے، یا کسی نہ کسی ذریعے سے خان صاحب کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوگئے کہ وہ نون لیگ کے خلاف ہیں یا نون لیگ اُن کے بہت خلاف ہے وہاں کِسی ’’معجزے‘‘ کے تحت کچھ ایسے افسران کو بھی تعینات کیا گیا جن کا کردار واقعی بے داغ تھا۔ یا وہ زیادہ بُری شہرت کے حامل نہیں تھے، آپ یقین کریں ایک کرپٹ افسر جس کی پوری کوشش کے باوجود ایک اہم عہدے پر تقرری نہیں ہورہی تھی، ایک روز مجھ سے ملنے آیا، کہنے لگا ایک دوروز میں ایک اہم عہدے پر میری تقرری ہونے والی ہے، میں نے اِس مقصد کے لیے ایک حکومتی رُکن اسمبلی کو پچاس لاکھ ایڈوانس دے دیئے ہیں ‘‘ … میں نے پوچھا ’’پچاس لاکھ روپے آپ نے اپنی تقرری کے لیے دیئے ہیں؟، وہ بولا ’’نہیں ۔ پچاس لاکھ روپے میں نے اِس لیے دیئے ہیں کہ وہ حکومتی رُکن قومی اسمبلی کل وزیراعظم خان صاحب سے مِل رہا ہے وہ اُنہیں یقین دلادے گا کہ میں ذہنی طورپر نون لیگ کے بہت خلاف ہوں، تقرری تو اُس کے بعد خود بخود میری ہوجائے گی ‘‘…میں نے عرض کیا ’’مگر آپ تو نون لیگ کے پنجاب میں دس برس اقتدار میں بڑے بڑے اہم عہدوں پر تعینات رہے ہیں … کہنے لگا ’’وزیراعظم نے کون سا کسی سے پتہ کروانا ہوتا ہے، اُن کے توبس کان میں ڈالنے والی بات ہے‘‘ … لوگوں کا خیال تھا حمزہ شہباز شریف کی نئی حکومت آئی جی اور چیف سیکرٹری پنجاب کو فوراً تبدیل کردے گی، فی الحال دونوں اپنے عہدوں پر موجود ہیں، دونوں کی عمومی شہرت اچھی ہے، چیف سیکرٹری کامران علی افضل کے بارے میں جس سے سنا اچھا سنا، وہ جہاں بھی رہے مختلف اقسام کی غلاظتوں سے خود کو پاک رکھنے کی پوری کوشش کی، آئی جی پنجاب رائو سردار بھی ایک  پروفیشنل پولیس افسرہیں وہ بھی جہاں رہے ایسی سیاسی و مالی آلودگیوں سے خود کو ہمیشہ پرے ہی رکھا جِسے ہمارے بے شمار سول وپولیس افسران نے باقاعدہ طورپر اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے، خان صاحب جب وزیراعظم تھے اُنہیں پنجاب میں جرائم پیشہ افراد کو نتھ ڈالنے کی یقین دہانی کرواکر ایک ایسا پولیس افسرآئی جی پنجاب لگنے میں کامیاب ہوگیا جس کے جرائم پیشہ افراد سے ذاتی روابط تھے۔ لاہور کے مشہور جوئے خانے اُس کے بیٹے کو کروڑوں روپے کی ’’منتھلیاں‘‘ دے کے چلتے رہے ،… جہاں تک سیاسی آلودگیوں کے شکار افسروں کا تعلق ہے حالت یہ ہے پہلے ’’محکموں‘‘ کے افسرہوتے تھے اب ’’جماعتوں‘‘ کے ہوتے ہیں، اگلے روز ایک افسرسے ملاقات ہوئی میں نے اُن سے یہ نہیں پوچھا آج کل آپ کس محکمے میں ہیں؟‘‘۔ میں نے اُن سے کہا ’’آج کل تو آپ یقیناً نون لیگ میں ہوں گے‘‘ …میری اِس ’’پھبتی ‘‘ پر وہ ذراشرمندہ نہیں ہوئے، ہنس کر بولے ’’بس ایک دو روز میں ہو جائوں گا‘‘… ویسے یہ بھی ایک المیہ ہے ہم یہ سمجھتے ہیں سارے بڑے سول وپولیس افسران کی تقرریاں اور تبادلے شاید سیاسی حکمرانوں کی مرضی سے ہوتے ہیں، اصل میں تو یہ ’’اصلی حکمرانوں‘‘ کی مرضی سے یا اُن کے ’’فرنٹ مینوں‘‘ کی مرضی سے ہوتے ہیں مگر اُن کی نااہلیاں، نالائقیاں اور بدنامیاں بے چارے سیاسی حکمرانوں کے کھاتے میں پڑجاتی ہیں اور اُس کا خمیازہ ملک اور عوام کو بھگتنا پڑتا ہے، بے بس سیاسی حکمران اتنے میں ہی خوش رہتے ہیں کہ چلیں اُن سفارشی افسروں کی سمریاں اپرووکرنے یا اُن کے آرڈر وغیرہ نکالنے کے اختیارات تو اُن ہی کے پاس ہیں ناں … ہیں جی …!! 

مصنف کے بارے میں