اخوت اور بھائی چارے کا ملک

اخوت اور بھائی چارے کا ملک

کینیڈا کے شہر وٹبی میں صبح صبح ٹی وی لاؤنج میں بیٹھا یہ کالم لکھ رہا ہوں ، باہر ہلکی ہلکی برف باری ہو رہی ہے ،کھڑکی کے شیشوں سے باہر روئی کے نرم نرم اڑتے ہوئے گالوں کی طرح گرتی برف عجیب نظارہ دکھا رہی ہے ، ہر طرف محسوس ہونے والے سکون میں گرتی ہوئی برف اور اضافہ کر دیتی ہے۔ اکتوبر ،نومبر دو ایسے مہینے ہوتے ہیں جن میں آپ کینیڈا کی خوبصورتی کے اکثر پہلو دیکھ سکتے ہیں ،آپ اکتوبر کے شروع میں خوبصورت اور رنگ برنگے پیڑ پودے دیکھنے کے بعد ،مہینے کے آخر میں ہر سو بکھرے خوبصورت پتوں کے سحر میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور پھر نومبر میں اکثر شروع ہونے والی برف باری دیکھنے کو ملتی ہے۔ میں نے گرم گرم چائے کا گھونٹ لیا اور لیپ ٹاپ پہ کالم ٹائپ کرنا شروع کر دیا۔ اس وقت میری عجیب کیفیت ہے ،کبھی برف باری کا نظارہ کرتا ہوں اور کبھی سامنے لگے ٹی وی پر پاکستان کے حالات سے لمحہ بہ لمحہ باخبر رہنے کےلئے پاکستانی نیوز چینلز پرنظر دوڑاتا ہوں،اسی طرح نیوز اور حالات حاضرہ سے متعلق ایک وٹس ایپ گروپ سے بھی مجھے کافی راہنمائی ملتی ہے ، اکثر سینئر صحافی اور بیوروکریٹس اس گروپ کا حصہ ہیں،جس میں ایک طرف ہمارا گروپ ایڈمن تیز ترین سینئر رپورٹر ، ڈپٹی بیوروچیف دنیا ٹی وی لاہور حسن رضا تازہ تازہ خبروں اور حالات سے آگاہی دیتا رہتا ہے تو دوسری طرف اطلاعات اور تعلقات عامہ کے بلا مقابلہ گرو راو تحسین اپنے زبردست کمنٹس سے پھلجڑھیاں بکھیرنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے،ہاں ہمارا بھائی صد ر سی پی این ای کاظم خان انہیں اپنے سوالات سے اکثر لاجواب کر دیتا ہے،کاظم بھائی ایسا نہ کیا کریں۔ہمارے توفیق بٹ بھائی کا تو کوئی جوڑ ہی نہیں وہ اپنے کاٹ دار کالموں،جملوں اور سفر ناموں سے محظوظ رکھتے ہیں، راشد لنگڑیال بڑے ذوق والے اعلیٰ افسر اور خوبصورت شاعر ہیں اس گروپ کے ذریعے ان کا تازہ ترین کلام بھی پڑہنے کو مل جاتا ہے مگر جب سے وہ وفاقی سیکرٹری پاور بنے ہیں ان کا کلام بجلی کی طرح کم کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔پنجاب کے صوبائی سیکرٹری اسد اللہ فیض گروپ میں محتسب کا کردار ادا کرتے ہیں تو ہم سب کے پیارے جی ایم سکندر ہلکی پھلکی باتوں،لطیفوں اور ویڈیوز سے گروپ کو کشت زعفران بنائے رکھتے ہیں۔ کوئی دو ہفتے قبل پاکستان سے یہاں پہنچا تو پت جھڑ کا خوبصورت نظارہ اپنے اختتام کو تھا اور بہت کم درختوں پر رنگ برنگے پتے نظر آ رہے تھے،تیز ہوائیں درختوں اور پتوں کی خوبصورتی کو اڑا چکی تھی اور اب فال سیزن ، سنو فال سیزن میں تبدیل ہو چکا ہے۔ کینیڈا برفیلے کوہساروں،پھولوں سے لدے مرغزاروں،بلندی سے گرتی آبشاروں اور میٹھے پانی کی جا بجا بکھری ہزاروں جھیلوں کا دیس ہے۔سردو گرم موسموں،ایک طرف سمندر کے کھارے پانی اور دوسری طرف میٹھے پانیوں کے ذخائر، ہر رنگ ،نسل ،ذات، مذہب،ملک کے افراد پر مشتمل دنیا بھر کے تارکین وطن کا ایک ایسا گلدستہ ہے جس کی خوشبو سے اس کے طول و عرض ہر وقت مہکتے رہتے
ہیں۔کینیڈا کسی دور میںبرف کا جہان تھا،یہاں کے اصل باشندے آج بھی شہری آبادیوں میں رہنے کے بجائے قطب شمالی کی برفیلی چوٹیوں پر بسیرا کئے ہوئے ہیں،کینیڈا کی ماضی کی تہذیب وقت کی گرد تلے کہیں دفن ہوچکی ہے اس وقت یہاں یورپی تمدن کاغلبہ ہے۔ برطانیہ اور فرانس نے اس خطہ زمیں پر تسلط کیلئے طویل جنگ لڑی،اگر چہ کینیڈا امریکہ کے قریب واقع ہے جس کی وجہ سے اسے جنوبی امریکہ بھی کہا جاتا ہے،مگر یہ ملک ایک عرصہ ہماری طرح یونین جیک کے زیر اثر رہا اور یہاں ملکہ برطانیہ کا سکہ چلتا رہا،تاریخ دانوں کے مطابق 14ہزار سال قبل پہلے تارکین ، سمندر کے راستے یہاںآکر آباد ہوئے،انسانی تاریخ کی قدیم ترین یادگاریں بھی ”اولڈ کرو فلیٹس“اور”بلیو فش کیوز“ کے نام سے یہاں آج بھی موجود ہیں۔
کینیڈا کے برطانوی کالونی بننے کے بعد بڑی تعداد میں برطانوی باشندوں نے نقل مکانی کر کے کینیڈا میں رہائش اختیار کی،فرانس سے بھی بڑی تعداد میں تارکین وطن نے کینیڈا میں سکونت اختیار کی،یورپ سے آنے والے تارکین کی آباد کاری کیخلاف مقامی لوگوں نے ہلکی پھلکی مزاحمت بھی کی،مگر جلد ہی ان کو قسمت کا لکھاسمجھ کر قبول کر لیا،برطانیہ کی جانب سے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل میں مقامی باشندوں نے سرگرمی سے حصہ لیا،اور پھر مقامی لوگوں نے تارکین سے ازدواجی بندھن بھی باندھناشروع کر دیا جس سے ایک نئی نسل نے جنم لیا جو مقامی آبادی اور تارکین میں قریبی مراسم کا سبب بنی،اٹلی اور پرتگال نے بھی یہاں کی دولت میں سے اپنا حصہ وصول کرنا شروع کیا اور کینیڈا کے سمندروں میںماہی گیری کاپیشہ اپنایا۔ آج بھی کینیڈا میں اکثر شہروںکے نام برطانیہ اور فرانس کے شہروںسے منسوب ہیں،طویل جنگوںکے بعد 1763 ءمیں برطانیہ کینیڈا کے بیشترحصہ پر تسلط قائم کرنے میںکامیاب ہو گیا،اس دوران برطانیہ اور فرانس اپنی زبان اور تہذیب کے نفاذ کیلئے مسلسل کوششوں میںمصروف رہے،اس کوشش میں کبھی کبھار تشدد بھی در آتا نوبت جنگ کی بھی آتی رہی،1812ء میں امریکہ اور برطانیہ میں بھی کینیڈا کی سرحدوں کے حوالے سے جنگ ہوئی جس کے بعد کینیڈا کی مستقل سرحدکا تعین کیا گیا۔
1867ءمیں صوبوں کا قیام عمل میں آیا ،1905ءمیںنئے صوبے قائم کئے گئے،اس وقت کینیڈا میں دس صوبے ہیں،99لاکھ80ہزار مربع کلو میٹر پر محیط کینیڈا کی 80فیصد آبادی شہری ہے جبکہ زیادہ تر زمین پر جنگلات ہیں۔برطانوی کالونی کی حیثیت سے پہلی جنگ عظیم میںبھی کینیڈا سے فوجی بھرتی کی گئی،اس جنگ میں چھ لاکھ 25ہزار کینیڈین شہریوں نے حصہ لیا جن میں سے 60ہزار مارے گئے،اور ایک لاکھ 72ہزار زخمی ہوئے۔کینیڈا ایک پارلیمانی جمہوری ملک ہے،کرپشن سے عاری ممالک میں کینیڈا کا پہلا نمبر ہے،حکومتی سطح پر شفافیت بھی اس کا خاصہ ہے،شہریوں کا بلند تریںمعیار زندگی بھی کینیڈا کی خصوصیت ہے،شہری آزادی کے حوالے سے بھی کینیڈا کو ممتاز مقام حاصل ہے،پابندیوں سے آزاد معیشت بھی کینیڈین معاشرے کا ایک لازمی حصہ ہے،شرح خواندگی اور معیار تعلیم میں بھی کینیڈا کو خاص مقام حاصل ہے،تیزی سے ترقی کرتی معیشت دینا کی چند بڑی معیشتوںمیں شامل ہوتی ہے،مختصر مدت میں ترقی یافتہ ملک بننے میں شہریوں کو حاصل آزادی اور قانون کی حکمرانی ہے،کینیڈا سب سے زیادہ فی کس انکم حاصل کرنے والادنیا کا 15واں ملک ہے،انسانی ترقی میںکینیڈا دنیا میں 12ویں نمبر پر ہے،معاشی ترقی میں کینیڈا دسواں بڑا ملک ہے۔
کینیڈا دنیا کا واحد ملک ہے جہاںہر رنگ، نسل،ذات،مذہب اور ملک سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں،مگر اس کے باوجودنفرت، عصبیت نام کے کسی جانور کا وجود نہیں،سب بھائی چارے اور اخوت سے رہتے ہیں،ایک دوسرے کے غم خوشی میں شریک ہوتے ہیں،دیانتداری سے کہا جائے تو اسلام نے دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کیلئے جو پیغام انسانیت کو دیا وہ کینیڈا میں عملی طور پر رائج ہے،مذہبی رسومات اور عبادات پر بھی کوئی پابندی نہیںمگر دوسری طرف اس کیوجہ سے شہری زندگی بھی متاثر نہیںہوتی جو ہمارے لئے سوچنے کی بات ہے۔

مصنف کے بارے میں