بیس کی چائے

Ali Imran Junior, Pakistan, Naibaat newspaper,e-paper, Lahore

دوستو، آپ کو حیرت ہورہی ہوگی کہ کالم کا نام ”بیس کی چائے“ کیوں رکھا ہے؟ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ چائے کے حوالے سے آج کچھ اوٹ پٹانگ باتیں ہوں گی،چائے کی قیمت موضوع بحث ہوگی یا پھر چائے کی افادیت پر سیرحاصل گفتگو رہے گی۔؟؟ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔۔ اصل میں آج سے ”ٹی ٹوئنٹی“ ورلڈ کپ شروع ہورہا ہے،ہمارے باباجی ”ٹی ٹوئنٹی“ کا اردو ترجمہ۔۔ بیس کی چائے کرتے ہیں۔۔اصل میچ، یعنی فائنل سے پہلے فائنل چوبیس اکتوبر کو پاکستان اپنے روایتی حریف بھارت سے کھیلے گا۔۔ چلیں تو پھر آج آپ کو بیس کی چائے پلاتے ہیں۔۔ آج اتوار ہے یعنی چھٹی کا دن، چھٹی والے دن شوہر زیادہ تر گھر کے کام نمٹانے کے بعد ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں، اگر کرکٹ میچ آرہا ہو تو ان کا وقت اچھا پاس ہوجاتا ہے، بیگمات اپنے شوہر کی چھٹی کی مناسبت سے کچن میں اسپیشل ڈشز بناتی ہیں اس طرح خواتین کا ٹائم بھی پاس ہوجاتا ہے۔۔
1970ء کی دہائی تک کرکٹ کی اپنی ثقافت اور معیار تھے۔ یہ کھیل تماشائیوں کو ذہنی تناؤ اور بلند فشار خون کے بجائے سکون اور آسودگی دیتا تھا۔ پانچ روزہ ٹیسٹ میچ اکثر ہار جیت کے فیصلے کے بغیر ختم ہوجایا کرتے تھے لیکن اس وقت شاید ”ہار جیت“ کچھ زیادہ معنی بھی نہیں رکھتی تھی۔ کرکٹ کو جنگ و جدل کے بجائے ایک نفیس کھیل سمجھا جاتا تھا۔ شائقین کھلاڑیوں کے ہنر، تکنیک اور کھیلنے کے انفرادی سٹائل سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ کھلاڑی بھی مہذب، شائستہ اور پرتحمل تھے۔ پیسے اور شہرت کے جنون پر شوق اور سپورٹس مین سپرٹ حاوی تھا۔ میچ فکسنگ، جوئے اور سٹے کا تصور تک نہیں تھا۔ اس وقت تک کرکٹ کمرشلائز نہیں ہوا تھا۔۔کمرشل کرکٹ کا آغاز80 کی دہائی میں آسٹریلیا کے بڑے سرمایہ دارکیری پیکر نے کرایا تھا۔ پہلے پہل آئی سی سی نے اس رجحان کو روکنے کی کوشش کی لیکن سرمائے نے اس ادارے کو بھی ہڑپ کرلیا۔ ون ڈے کے بعد اس کھیل کو مزید منافع بخش بنانے کے لئے T-20 کا آغاز کیا گیا۔ پھر آئی پی ایل جیسے ٹورنامنٹ شروع ہوئے جہاں طوائفوں کی طرح کھلاڑیوں کی بولیاں لگائی جانے لگیں۔ دولت کی ہوس نے سماج کے ہر شعبے کی طرح کرکٹ کو بھی برباد کر دیا۔ ماضی قریب میں ”بگ تھری“ کا معاملہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح کھیل دولت کے شکنجے میں جکڑا جاچکا ہے۔نیوزی لینڈ اور انگلینڈ کی کرکٹ ٹیموں کا پاکستان کے دورے سے انکار بھی کچھ اسی طرح کا معاملہ ہے،جیسے پاکستانی ٹیم بچوں پر مشتمل ہے،فرنگیوں کا جب دل کرے گا کھیلیں گے جب جی چاہے گا کھیلنے سے منع کردیں گے۔
ایک دوست فون پراپنے دوست کوبتارہا تھاکہ۔یار پرسوں ہمارا کرکٹ کا فائنل میچ تھا، خوب فائٹ ہوئی اور بعد میں بہت لڑائی ہوئی۔۔ احمدشہزاد کسی دعوت میں گئے، میزبان نے پوچھا کھانا کیسا لگا۔۔ قومی ٹیم کے اوپنر کہنے لگے۔۔“سارا کھانا بہت مزیدار تھا لیکن میٹھا۔۔ بہت میٹھا تھا“۔۔ یاسر شاہ سے کسی نے پوچھا۔۔بھینس کی کتنی ٹانگیں ہوتی ہیں۔۔لیگ اسپنر نے کہا۔۔ یہ تو کوئی بے وقوف بھی بتادے گا۔۔ پوچھنے والے نے جگت لگائی۔۔اسی لئے تو تم سے پوچھ رہا ہوں۔۔ آفریدی کو بچپن میں استاد نے پوچھا۔۔ کوئی سے پانچ پھلوں کے نام بتاؤ۔۔ آفریدی بولا۔۔ تین مالٹے دو سیب۔۔قومی ٹیم کے پروفیسر نیوزی لینڈ کی ایک مشہور بیکری گئے۔پوچھا۔۔ یہاں کیا کیا ملتا ہے۔۔ سیلزمین نے کہا سرجوآپ چاہیں گے مل جائے گا۔۔حفیظ نے کہا۔۔کتے کے کھانے کا کیک ہوگا۔۔سیلزمین بولا۔۔سر یہیں کھائیں گے یا گھر لے جائیں گے۔۔شعیب ملک کا تعلق سیالکوٹ سے ہے، ان کے پڑوسی نے ایک بار پوچھا۔۔ کیا آپ بتاسکتے ہیں، گائے مفید ہے یا بکری۔۔ شعیب ملک کہنے لگے۔۔ میرے خیال میں بکری مفید ہے، اس لیے کہ گائے نے ایک بار مجھے ٹکر ماری تھی۔۔عمرگل سے کسی نے پوچھا۔۔خان صاحب کیا جنت میں نسوار ملے گی؟۔۔ شگفتہ مزاج عمرگل بولے۔۔ ہاں ضرور، لیکن اس کو تھوکنے کے لیے جہنم میں جانا پڑے گا۔۔نیوزی لینڈ کے دورے میں ٹیم کے کھلاڑی سیروتفریح میں مشغول تھے کہ۔۔سرفراز کو ایک بھکاری نظرآیا جو ہاتھ میں پلے کارڈ اٹھائے بھیک مانگ رہاتھا۔۔ پلے کارڈ پر لکھا تھا میں بہرہ اور گونگا ہوں برائے کرم میری مدد کرو۔۔سرفراز بھکاری کے قریب گیا اور پوچھا۔۔ آپ کب سے گونگے اور بہرے ہیں۔۔بھکاری نے فوری جواب دیا۔۔”پیدائشی گونگا اور بہرہ ہوں۔“۔۔سرفراز بھی نرم دل تھے جیب سے دس ڈالر کا نوٹ نکال کر فقیر کو دے دیا۔۔عمادوسیم سے استاد نے کہا۔۔ سب لڑکوں نے دودھ پر دو صفحات کا مضمون لکھا ہے، اور تم نے دو سطر کا۔۔ عماد وسیم نے کہا۔۔ جناب! میں نے خالص دودھ پر مضمون لکھا ہے۔
بیوی نے جب شوہر کوتیارشیار ہوکر باہر جاتے دیکھا تو سمجھ گئی کہ کرکٹ کا شوقین کھیلنے جارہا ہے، غصے سے بولی۔۔ پھر وہی منحوس کرکٹ اگر تم ایک شام کرکٹ کھیلنے نہ جاؤ تو میں خوشی سے مر جاؤں۔۔شوہر بڑی معصومیت سے کہنے لگا۔۔بیگم خدا کے لئے مجھے ایسا لالچ نہ دو۔۔کرکٹ ٹیسٹ میچ ہو رہا تھا، سٹیڈیم کے گیٹ پر ایک لڑکا پاس دکھا کر اندر جانے لگا تو گیٹ کیپر نے کہا ”یہ تمہارا پاس تو نہیں ہے“۔ لڑکے نے جواب دیا۔”یہ میرے والد صاحب کا ہے“۔ گیٹ کیپر نے پوچھا۔۔”وہ کیوں نہیں آئے؟“۔ لڑکے نے جواب دیا”وہ بہت مصروف ہیں“۔ گیٹ کیپر نے پوچھا”وہ کیا کر رہے ہیں“۔ بچے نے جواب دیا ”اپنا پاس تلاش کر رہے ہیں“۔۔ایک قومی کرکٹر ماہرنفسیات کے پاس گیا اور کہنے لگا۔۔ڈاکٹر صاحب میں ایک عجیب مرض میں مبتلا ہوگیا ہوں۔۔ہر وقت سر چکراتا رہتا ہے۔۔نہ مجھ سے رن بنتے ہیں نہ ہی باؤلنگ ہوتی ہے۔۔ فیلڈنگ کرتے وقت میرا دم گھٹنے لگتا ہے، کیچ پکڑتے وقت گیند ہی نظر نہیں آتی۔۔ماہرنفسیات نے پوری بات سن کر انتہائی سنجیدگی سے کہا۔۔آپ ایسا کریں کہ کرکٹ کھیلنا چھوڑ دیں اس کا بس یہی علاج ہے۔۔کرکٹر غصے سے کہنے لگا۔۔نا ممکن۔۔میں تو اب قومی ٹیم میں کھیل رہا ہوں۔۔
آپ کو کرکٹ پسند ہو یا نہیں، پاکستانیوں کی اکثریت کو یہ کھیل بے انتہاپسند ہے۔۔ اب کچھ روز فضاؤں میں کرکٹ،کرکٹ گونجے گی۔۔ نائی کی دکان سے لے کر چائے کے ہوٹلوں تک۔۔ بسوں، ٹرینوں میں سفر سے لے کر ہسپتالوں کی انتظارگاہوں تک سب ایک دوسرے سے سکور پوچھ رہے ہوں گے اور اپنے شاہینوں کی فتح کے لئے دعاگو رہیں گے۔۔ اب چلتے چلتے آخری بات۔۔بچپن کے کھیل ختم ہوتے ہیں تو پھر نصیب کے کھیل شروع ہوجاتے ہیں۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔