مشکلات، مسائل، اور خواہشیں!

Dr Lubna Zaheer, Daily Nai Baat, Urdu Newspaper, e-paper, Pakistan, Lahore

مسائل اور مشکلات پر نظر ڈالیں تو ایک لمبی فہرست بن جاتی ہے۔ کیا داخلی اور کیا خارجی۔ پتہ نہیں یہ مسائل ختم ہونے میں کیوں نہیں آتے۔ دعوے، نعرے اور تقریریں سنو تو لگتا ہے ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگی ہیں۔ بڑے بڑے رنگین اور با تصویر اشتہاروں کو دیکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان پر لگا کر ہواؤں میں اڑنے لگا ہے۔ لیکن زمینی حقائق پر نگاہ ڈالیں تو نہایت ہی افسوسناک اور پریشان کن تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے۔ آج ہی کے اخبارات کی خبر ہے کہ جنوبی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف ایک آپریشن میں پاک فوج کے سات جوان شہید ہو گئے۔ یہ سات ان ہزاروں شہداء میں شامل ہیں جو گزشتہ بیس سالوں سے جاری امریکی جنگ کے نتیجے میں اپنی جانوں سے گزر گئے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ان شہیدوں کو اونچا مقام عطا فرمائے اور ان کے پسماندگان کو صبر دے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہو جانے اور امریکہ کے رخصت ہو جانے  کے باوجود ہماری مشکلات میں کوئی کمی نہیں آئی۔ بلکہ یوں لگتا ہے جیسے ان مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے اور اللہ نہ کرے ان میں اور زیادہ شدت کا امکان بھی موجود ہے۔ اب کوئی پوچھے بھی تو کس سے پوچھے کہ 1979ء میں ہم کیوں افغانستان میں جا گھسے تھے اور امریکہ کے ساتھ مل کر روس کے خلاف لڑنے کا فیصلہ کیوں کیا تھا؟ اور پھر 2001ء میں ہمیں کیا پڑی تھی کہ پرائی آگ میں چھلانگ لگا دی اور اب کے اسی امریکہ کے ساتھ مل کر افغانوں کو مارنے لگے۔ ہو سکتا ہے کہ اس وقت یہ دونوں فیصلے اچھے لگتے ہوں لیکن آج چالیس سالوں کے بعد واضح ہو گیا ہے کہ ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ یہ ہماری خارجہ پالیسی کا صرف ایک پہلو ہے۔ ایک پاکستانی کی حیثیت سے دکھ ہوتا ہے جب ہمارے وزیر اعظم سے سوال کیا جاتا ہے کہ آپ کو امریکی صدر جوبائیڈن کا فون کیوں نہیں آیا اور وزیر اعظم کو یہ جواب دینا پڑتا ہے کہ ”امریکی صدر ایک مصروف آدمی ہیں“۔  وزیر اعظم نے اس کے باوجود یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ امریکہ ہمارے ساتھ وہی سلوک کرے جو وہ ہندوستان کے ساتھ کر رہا ہے۔ کوئی بھی ملک کسی دوسرے ملک کی خواہش پر اپنی پالیسیاں نہیں بناتا۔ اور جس سے ہمارے وزیر اعظم مخاطب ہیں اس کا نام تو امریکہ ہے جو ہر دوسری مملکت کی طرح صرف اپنامفاد دیکھتا ہے۔ وہ منہ زبانی جو مرضی  دعوے کرے، انسانی حقوق، آزادی، جمہوریت، حقوق نسواں اور آزادی اظہار رائے جیسے خوبصورت نعرے لگائے، اگر کوئی ملک اس کی مرضی کے تابع ہو جاتا ہے تو وہ ایسی چیزوں کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ اور جب وہی ملک اپنے قومی مفاد میں امریکہ کی تابعداری سے انکار کر دے تو پھر اسے ہر چیز میں کیڑے نظر آنے لگتے ہیں۔
ہمارے ہاں ماضی سے سبق سیکھنے، اپنا احتساب کرنے اور تجربوں کو سامنے رکھتے ہوئے مستقبل کا لائحہ عمل بنانے کا رواج ہی نہیں، ہم صرف،حال،  میں زندہ رہنے والی قوم ہیں۔ پتہ نہیں قوم بھی ہیں یا بائیس کروڑ افراد کا ایک انبوہ ہیں۔ لمحہ بھر کو سوچئے کہ گزشتہ 74 سالہ تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ کیا تھا؟ تھوڑی بہت سوجھ بوجھ رکھنے والا، پاکستانی بھی کہے گا کہ قائد اعظم کے پاکستان کا ٹوٹ جانا، ہماری قومی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ تھا۔ اب زرا اس نکتے کی طرف آئیے کہ یہ سانحہ کیوں پیش آیا؟ اس کے اسباب و محرکات کیا تھے؟ اس پر درجنوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔ ان میں وہ فوجی افسران بھی شامل ہیں جو 1971ء کی جنگ کا حصہ تھے۔ ان تفصیلات کو پڑھیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ صرف بریگیڈیئر صدیق سالک شہید کی کتاب ”میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا“ پڑھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وطن عزیز اس وقت کس طرح کے لوگوں کے نرغے میں آگیا تھا اور جب ڈھاکہ ڈوب رہا تھا تو اس وقت بھی و ہ کس طرح اپنے ذاتی مفادات کا کھیل کھیل رہے تھے۔ آپ اس دل دہلا دینے والے منظر کا تصور کریں جب ہمارے مسلمان بنگالی بھائی، فاتح بھارتی سپاہیوں کو کندھوں پہ اٹھائے، پاکستان اور پاکستانی فوج کے خلاف نعرے لگا رہے تھے اور جنرل نیازی، بھارتی جرنیل جگجیت سنگھ اروڑہ کے سامنے ہتھیار ڈال کر شکست کی دستاویز پر دستخط کر رہا تھا۔
مسائل کا ذکر کرتے ہوئے بات دور نکل گئی۔ مقصد یہ بتانا تھا کہ ہم نے اس سب سے بڑے سانحے سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔ جسٹس حمود الرحمن جیسے نیک نام شخص کی سربراہی میں بننے والے کمیشن کی رپورٹ بھی پنجابی محاورے کے مطابق "کھو کھاتے  "   چلی گئی۔ آج تک کوئی بھی حکومت اس رپورٹ کو مکمل طور پر سامنے نہیں لائی۔ جتنا حصہ منظر عام پر آیا، اسکو بھی ردی کاغذوں والی ٹوکری میں ڈال دیا گیا۔ جن باتوں کی سفارش کی گئی تھی، ان سب کو نظرانداز کر دیا گیا،جن باتوں سے روکا گیا تھا، ان کو پورے ذوق و شوق سے جاری رکھا گیا۔ حمود الرحمن کمیشن نے کہا تھا کہ اس طرح کے المناک سانحوں سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ جمہوریت مضبوط ہو اور مسلح افواج اپنی آئینی ذمہ داریوں تک محدود رہیں۔ اس سفارش کو کتنی اہمیت دی گئی؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ سقوط ڈھاکہ کے صرف ساڑھے پانچ سال بعد مارشل لاء لگ گیا جو گیارہ برس جاری رہا۔ 1999ء میں پھر جمہوریت، ملک بدر ہو گئی اور نیا فوجی انتظام نو سال جاری رہا۔ ہم نے کچھ بھی نہ سیکھا۔
اور آج جب ہمارے وزیر اعظم اس طرح کی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے گلہ کرتے ہیں کہ امریکہ نے ہم سے اچھا نہیں کیا۔ یا وہ ہمیں صرف کرائے کے سپاہی کے طور پر استعمال کرتا رہا۔ یا یہ کہ امریکی صدر کے پاس پاکستانی وزیر اعظم کو فون کرنے کا وقت نہیں، تو مجھ جیسے ہر پاکستانی کو دکھ ہوتا ہے۔ یہ سیاست کی بات نہیں اور نہ ہی اسے سیاسی عینک سے دیکھنا چاہیے۔ یہ پاکستان اور پاکستانیت کی بات ہے۔ اگر امریکی صدر ہمیں اتنی بھی اہمیت نہیں دیتا تو یہ عمران خان، تحریک انصاف یا حکومت کی سبکی نہیں، پاکستان کی سبکی ہے۔ ہر پاکستانی کی سبکی ہے۔ پچھلی تاریخ کو بھول بھی جائیں تو ہم نے 1980ء کے آغاز سے لے کر اگست 2021ء  تک کے چالیس سالہ عرصے میں کم و بیش تیس سال امریکہ کی براہ راست نوکری کی۔ عمران خان کے بقول کرائے کے سپاہی بنے رہے۔ عمران خان ہی نے بتایا ہے کہ امریکہ کی جنگ لڑتے ہوئے پاکستا ن کو 150 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ جانی نقصان کو ایک طرف رکھیئے۔
بات صرف یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ امریکہ ہی نہیں، دنیا کے دو سو کے لگ بھگ ممالک میں سے اکا دکا ملک ہی ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ وہ بھی اپنے عالمی مفادات کی وجہ سے۔ ایسا کیوں ہے؟ ہم دنیا میں تنہا کیوں ہو گئے ہیں؟ بھارت کو کشمیر ہڑپ کرنے کا حوصلہ کیوں ہوا؟ اس اقدام پر دنیا نے ہمارے موقف کی تائید کیوں نہیں کی؟ مقبوضہ کشمیر پر بھارت کے ظلم و ستم پر دنیا ہمارا ساتھ کیوں نہیں دیتی؟ افغانستان کے حوالے سے سب سے زیادہ قربانیاں دینے اور سب سے زیادہ مشکلات برداشت کرنے والے ملک کے باوجود دنیا ہمارے خلاف کیوں ہے؟ ہم فاٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لئے سو سو پاپڑ بیل چکے ہیں لیکن کہیں ہماری شنوائی کیوں نہیں ہو رہی؟ ایسا کیوں ہے کہ سلامتی کونسل افغانستان پر بات کرتی ہے تو ہمیں شرکت کی اجازت بھی نہیں ملتی؟ ایسا کیوں ہے ایٹمی ہتھیاروں کے تحفظ کا سب سے مضبوط اور مستحکم نظام رکھنے کے باوجود ہماری طرف انگلیاں اٹھتی رہتی ہیں؟ اور ایسا کیوں ہے کہ بائیس کروڑ انسانوں کا ایٹمی ملک، امریکی صدر کی ٹیلی فون کال کا بھی مستحق نہیں؟
ان سب سوالوں کا جواب کوئی اور نہیں، ہم خود ہی دے سکتے ہیں۔ صرف خواہش کرنے سے امریکہ ہمیں بھارت کے ہم پلہ نہیں سمجھے گا۔ اس کے لئے ہمیں بہت سے شعبوں میں اپنا اور بھارت کا موازنہ بھی کرنا پڑے گا۔ لیکن مار دھاڑ کے اس دور میں کس کے پاس اس طرح کی باتو ں پر غور و فکر کرنے کا وقت ہے؟