ابن مریم ہوا کرے کوئی

ابن مریم ہوا کرے کوئی

پاکستان کی قومی زبان اردو میں خواتین کو صنف نازک کا علامتی نام دیا جاتا ہے ہے اور اردو شاعری کے ارتقا سے لے کر آج تک رومانویت اور عشق ومحبت کے اظہار کے لیے اسی صنف نازک کے تصور کو مشق ستم بنا دیا جاتا ہے۔ حالانکہ ہمیں ان قدیم اور روایتی قصے کہانیوں سے باہر نکل کر دور حاضر میں قدم رکھنا چاہیے جہاں عورت محض صنف نازک یا غزل کا عنوان نہیں بلکہ معاشرتی ترقی کے سفر میں برابر کی حصہ دار ہے۔لہٰذا ہمیں جنوں اور پریوں کی داستانوں سے قطع نظر خواتین کے کردار کا اعتراف کرنا ہوگا پاکستان کی قومی مجموعی آبادی میں خواتین کا تناسب 51 فیصد سے زیادہ ہے اور کوئی معاشرہ اپنی آبادی کے اکثریتی حصہ کو نظر انداز کرکے کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔
اس پس منظر کے بعد جب ہم اقوام عالم میں پاکستان کی پسماندگی کا گراف دیکھتے ہیں تو جو سب سے بڑی وجہ نظر آتی ہے وہ یہی ہے کہ ہم نے ملک کے اس انسانی کیپیٹل کی ترقی کے لیے راست سرمایا 
کاری نہیں کی۔ ورلڈ اکنامک فورم (WEF) کی2021 کی جینڈر گیپ انڈیکس رپورٹ کا مطالعہ کریں تو اس میں صنفی مساوات میں 156 ممالک کی فہرست میں پاکستان 153 ویں نمبر ہے اور ایشیا میں پاکستان کی پوزیشن افغانستان سے ایک نمبر اوپر پر ہے جبکہ دیگر تمام سارک ممالک پاکستان سے بہتر درجے پر ہیں یہ اس حقیقت کا تقاضا کرتی ہے کہ پاکستان میں جینڈر پیرٹی یا صنفی مساوات کے لیے ہمیں بہت سا کام کرنے کی ضرورت ہے ہے۔
یہاں پر ہمیں یہ حقیقت مد نظر رکھنی چاہئے کہ اگر مساوی مواقع فراہم کیے جائیں تو پاکستانی خواتین کے اندر بے پناہ پوٹینشل موجود ہے جسے درست سمت استعمال نہیں کیا جارہا۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہمارے ہاں ہر سال میٹرک انٹرمیڈیٹ اور یونیورسٹی امتحانات میں لڑکیاں ہمیشہ پہلی پوزیشن پر ہوتی ہیں جن کے اعداد و شمار سب سے بڑا ثبوت ہیں کہ خواتین مردوں سے کسی طرح پیچھے نہیں اسی طرح ہر سال میڈیکل کے شعبہ میں جانے والے مجموعی اعدادوشمار میں لڑکیاں زیادہ تعداد میں ڈاکٹر بن رہی ہیں جو ان کی قابلیت اور ذہانت کا ثبوت ہے۔
اس وقت پاکستان میں صحت کے شعبے میں لاکھوں خواتین ڈاکٹرز دن رات انسانیت کی خدمت کے لئے مصروف عمل ہیں اور بجٹ اور صحت کے بنیادی ڈھانچے کے لاتعداد مسائل کے باوجود عالمی معیار کے مطابق صحت کی سہولیات خصوصا ولادت اور زچگی کے شعبے میں کارہائے نمایاں سرانجام دے رہی ہیں جو ہم سب کے لیے قابل تحسین ہے۔ اس موقع پر میں اپنا تجربہ سب کے ساتھ شیئر کرنا چاہتی ہوں جس کا مقصد یہ ہے کہ خواتین میں اس حقیقت کی آگاہی کی جائے کہ ہمارے سرکاری ہسپتالوں میں اعلیٰ معیار کا علاج مفت مہیا کیا جا رہا ہے لیکن مجموعی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ آپ پرائیویٹ ہسپتال میں بہتر علاج معالجہ کرا سکتے ہیں حالانکہ ہماری آبادی کی اکثریت پرائیویٹ ہسپتال افورڈ نہیں کر سکتی ۔
ڈاکٹری کے شعبے میں مسیحا کا لفظ جس نے بھی ایجاد کیا ہے وہ غلط نہیں تھا۔ ڈاکٹر انسانی جانوں کو بچانے اور نئی زندگی دینے کا کام کرتا ہے۔ جب ہم بیمار پڑتے ہیں تو آپ کی صحت کی بحالی اور تکلیف کا خاتمہ مکمل طور پر اللہ کے بعد ڈاکٹر کے ہاتھ میں ہوتا ہے اس وقت آپ کو اندازہ ہوتا ہے کہ تندرستی کتنی بڑی نعمت ہے اور ہمارے معاشرے میں ایک ڈاکٹر کا کیا مقام ہے بقول مرزا غالب
ابن مریم ہوا کرے کوئی میرے دکھ کی دعا کرے کوئی۔
جب آپ بیمار پڑتے ہیں تو دنیا کے سارے رنگ اور خوشیاں ماند پڑنے لگتی ہیں اور انسان صحت کے بدلے زندگی کی ہر سہولت سے دستبردار ہونے پر تیار ہو جاتا ہے کچھ ایسا ہی معاملہ میرے ساتھ پیش آیا۔اپنی صحت کی بابت کچھ مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ اس تلخ تجربے نے مجھے پہلے کی نسبت اللہ سے اور زیادہ قریب کر دیا جو دلوں کے حال جانتا ہے اور چھپی ہوئی اور ظاہر ہونے والی ہر بیماری سے آگاہ بھی ہے اور شفا بھی عطا کرتا ہے البتہ اتنا ضرور ہے کہ اللہ تعالی مشکل وقت میں اپنے بندوں کے ذریعے آپ کی مدد کرتا ہے جو آپ کا وسیلہ بن جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں میرا پہلا وسیلہ ہمارے ڈی جی ہیلتھ پنجاب محترم ڈاکٹر ہارون جہانگیر خان تھے جن کے ساتھ ہمارا بہت ادب و احترام کا رشتہ ہے ۔
انہوں نے مجھے ڈاکٹر آصفہ نورین (سروسز ہسپتال گائنی وارڈ تھری) کی طرف ریفر کر دیا۔ ڈاکٹر آصفہ ایک نہایت اعلیٰ پروفیشنل ثابت ہوئیں انہوں نے اپنے انتہائی شفقت بھرے انداز میں مجھے یقین دہانی کرائی کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔مریض کی آدھی بیماری تو ڈاکٹر کے مثبت رویے سے دور ہو جاتی ہے اور اچھے ڈاکٹر کی پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے مریض کے ساتھ ایک ذاتی اور راز دارانہ تعلق قائم کر کے اْسے اطمینان دلا دیتا ہے کہ مجھ پر بھروسہ کریں۔
ڈاکٹر آصفہ نے اپنی اعلیٰ پروفیشنل مہارتوں سے نہ صرف میری سرجری کا عمل مکمل کیا بلکہ دوران سرجری میرے سے چھوٹے چھوٹے سوالات کرتی رہی۔ شاید وہ مجھے سٹریس ریلیف مہیا کرنے کے لیے ڈیفرنٹ ٹیکنیکس یوز کر رہی تھیں۔آخر میں سرجری کی فائنڈنگز لکھوانے کے بعد میرے پاس آئیں اور اپنا ہاتھ شفقت سے میرے سر پر رکھا اور مجھے بغور دیکھتے اور حوصلہ دیتے ہوئے کہا ان شاء اللہ کچھ ایسا ویسا نہیں ہوگا سب اچھا ہوجائے گا۔ وہ فرشتہ صفت انسان یا مسیحاجن کا میں نے کتابوں میں پڑھا تھا آج اپنے سامنے دیکھ لیا اور یہ سوچنے لگی یہ دنیا ایسے ہی قائم نہیں اللہ کی مخلوق سے محبت کرنے والے لوگ باقی ہیں جن کے دم سے یہ دنیا قائم ہے اور دل ہی دل میں اپنی ڈاکٹر کو بہت سی دعائیں دئیں۔ انسانیت کی خدمت کرنے والوں کی بہرحال تعریف کی جانی چاہیے تاکہ وہ مسلسل یہ خدمت کرتے رہیں اور دوسرے لوگ بھی اس سے تحریک حاصل کریں۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمارے ملک کا ہر ڈاکٹر اسی طرح اپنے فرائض منصبی ادا کرے۔
یہ کالم لکھنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ قومی سطح پر اس شعور کو بیدار کیا جائے کہ ہمارے ڈاکٹرز ہمارا قومی سرمایہ ہیں اگر ان کو سہولتیں فراہم کی جائیں تو پاکستان میں کسی کو علاج کے لئے ملک سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔

مصنف کے بارے میں