نئی حکومت اور مسائل کی بھر مار

نئی حکومت اور مسائل کی بھر مار

ہفتہ، سولہ اپریل کے روز پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں جو کچھ ہوا، اس کا بیان چند سطروں میں نہیں تکمیل پا سکتا، بلکہ اسکے لیے کم از کم ایک الگ سے کا لم درکار ہے۔ یوں اسے آیندہ پہ اٹھائے رکھ کر نئی قومی حکومت کے نئے سفر پہ بات کر لیتے ہیں۔ مطلب یہ کہ نئے وزیراعظم کو حلف اُٹھائے آج پانچواں روز ہے مگر یوں لگتا ہے کہ نئی حکومت ابھی اُڑان بھرنے کی تیاریوں میں ہی مصروف ہے۔ اس دوران وزیراعظم نے معاشی ماہرین سے ایک ملاقات کی، کراچی کا ایک خیر سگالی دورہ کیا اور اسلام آباد میں میٹرو بس کے روٹ کا جائزہ لیا، مگر یہ کام نئی حکومت کی افتتاحی سرگرمیوں کے لیے ناکافی ہیں۔ کابینہ کی تشکیل کسی حکومت کے قیام کے بعد عملی پیش رفت کا نقطہ آغاز ہوتی ہے، مگر نئی وفاقی کابینہ کا مرحلہ بھی تادم تحریر عبور نہیں ہو پایا۔ چنانچہ حکومت کے عملی آغاز میں ہر گزرتے دن کے ساتھ تاخیر ہو رہی ہے۔ کثیر جماعتی اتحاد قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت کئی دن پہلے ثابت کر چکا تھا اور عدم اعتماد تحریک کی کامیابی کے ساتھ وفاقی حکومت کا اس اتحاد کے پاس آ جانا تقریباً طے تھا مگر اس امکان کے باوجود سیاسی اتحاد میں کابینہ کے حوالے سے کوئی ہوم ورک نہ ہونا حیران کن ہے۔ اس حکومت کے سامنے سب سے بڑا چیلنج معیشت کا ہے۔ یہ سننے میں آ رہا ہے کہ سابق حکومت بہت مسائل چھوڑ گئی، مگر فقط یہ بیانیہ کافی نہیں، عوام یہ جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ نئی حکومت اپنی قابلیت کے کیونکر جوہر دکھائے گی۔ وزیراعظم کے حلف کے چوتھے روز نیشنل الیکٹرک پاور اتھارٹی نے بجلی کے نرخوں میں چار روپے 85 پیسے اضافہ کر کے عوام کو چونکا دیا ہے۔ دوسری جانب پٹرولیم کی قیمتوں میں بھاری اضافے کی تجویز حکومت کو بھیجی گئی تھی۔ اگرچہ سردست حکومت نے قیمتیں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے مگر اوگرا کی تجویز کا دھڑکا موجود ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے فروری کے آخر میں جون تک پٹرولیم اور بجلی کی قیمتیں ایک ہی سطح پر منجمد کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اس کی وجہ یہ بتائی تھی کہ حکومت نے محصولات کی وصولی کا ہدف عبور کر لیا ہے، اس کا فائدہ عوام کو منتقل کیا گیا ہے۔ حکومت کی تبدیلی کے باوجود یہ فیصلہ آگے بڑھتا ہوا نظر آنا چاہیے اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں جون سے پہلے کوئی تبدیلی نہیں ہونی چاہیے۔حکومت اگر اس سے انحراف کرتی ہے تو اس کے سیاسی اثرات بھی ہوں گے۔ اگرچہ حکمران اتحاد کثیر جماعتی ہے مگر وزارتِ عظمیٰ کے منصب کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) ہی توجہ کا محور ہے اور نئی حکومت کے جو بھی فیصلے ہوں گے بنیادی طور پر اس کے لیے اس جماعت کو ہی جواب دہ ہونا پڑے گا۔ شہباز شریف صاحب حکمرانی کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور اس میں بھی شبہ نہیں کہ صوبے کی حد تک ان کی حکمرانی نظم و ضبط اور ترقیاتی کاموں کی وجہ سے مثالی مانی جاتی تھی، مگر وہ مرکز میں بھی اپنا ٹریک ریکارڈ برقرار رکھ پاتے ہیں، اس وقت یہ ایک ملین ڈالر کا سوال ہے اور اس کا جواب کابینہ کی تشکیل سے مشروط ہے۔ اگر یہ کام جلد طے پا گیا اور منصب دار اپنے عہدوں پر فائز ہو کر ذمہ داریاں انجام دینے لگے تب دیکھا جائے گا کہ اس حکومت اور عمران خان کی حکومت میں کیا فرق ہے۔ ایک کثیر جماعتی حکومت کے لیے 
توازن برقرار رکھتے ہوئے سفر جاری رکھنا بذات خود معمولی چیلنج نہیں؛ تاہم شریک اقتدار بڑی جماعتوں کو یہ مدنظر رکھنا ہو گا کہ یہ ان کی سیاسی اور جماعتی قابلیت کا بھی امتحان ہے۔ گزشتہ تین برس کے دوران مہنگائی کا گراف تیزی سے اوپر گیا ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق دسمبر 2018ء میں ملک میں مہنگائی کی اوسط شرح ساڑھے چھ فیصد تھی، دسمبر 2019ء میں یہ 12.6 فیصد تک پہنچ گئی۔ گزشتہ تین برس کے دوران مہنگائی میں زیادہ اضافہ 2020ء میں ہو اجو کہ جنوری 2020ء میں 14.6 فیصد تک تھا؛ تاہم اُسی سال دسمبر میں کنزیومر پرائس انڈیکس آٹھ فیصد پر آ گیا۔ دسمبر 2021ء میں مہنگائی کا اشاریہ 12.28 فیصد تھا جبکہ شماریات بیورو کی رپورٹ میں اس سال مارچ میں مہنگائی کی شرح 12.72 فیصد نوٹ کی گئی۔ حکومت کے سامنے ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ اس شرح میں کس طرح کمی لائی جائے۔ اس میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی شرح مبادلہ، جو گزشتہ ماہ ملکی تاریخ کی کم ترین سطح پر رہی ہے، بلاشبہ ایک ایسا عنصر ہے جس کے اثرات اشیائے خورونوش کی قیمتوں پر بھی مرتب ہوتے ہیں۔ بعض اشیاء پر یہ اثر براہِ راست پڑتا ہے جیسا کہ درآمدی اشیاء جن میں کھانا پکانے کا تیل سرفہرست ہے جس کے نرخ پچھلے چند برس میں سو فیصد سے بھی زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ علاوہ ازیں دالیں، مسالہ جات اور چائے پتی وغیرہ۔ یہ سبھی اشیاء پاکستان کے تقریباً ہر گھر میں استعمال ہوتی ہیں اور چونکہ یہ اشیاء درآمدی ہیں اس لیے روپے کی قدر میں کمی کے ساتھ ان اشیاء کے نرخوں پر براہِ راست اثر پڑتا ہے۔ دوسری صورت میں توانائی کی قیمتوں اور ٹیکسوں میں اضافے کے ساتھ اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ چنانچہ حکومت مہنگائی کو کم کرنے کے لیے اگر واقعی سنجیدہ ہے تو یہ صرف وزیراعظم یا کسی دوسرے حکومتی منصب دار کی جانب سے تنبیہ کر دینے سے نہیں ہو گا، اس کے لیے تکنیکی امکانات پیدا کرنا ہوں گے جو مہنگائی کو اس بلند سطح سے نیچے لانے میں مدد دے سکیں۔ ہماری معیشت کو تجارتی توازن کی اشد ضرورت ہے۔ یہ باعثِ تشویش ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ کے دوران تجارتی عدم توازن 35 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا تھا جو گزشتہ مالی سال کے اسی دورانیے کے مقابلے میں 70 فیصد زیادہ تھا۔ کیا اس تجارتی خسارے کے ساتھ کسی معیشت کے استحکام کا کوئی امکان ہو سکتا ہے؟ حکومت کو اس سلسلے میں فوری طور پر کچھ ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جو اس بڑھتے ہوئے خسارے کو روک سکیں۔ سٹیٹ بینک کے گورنر نے کوئی دو ماہ ہوئے کہا تھا کہ ڈالر کی قدر بڑھنے سے درآمدی اشیاء کی قدر میں اضافہ ہو گا اور ان اشیاء کی قیمت زیادہ ہونے سے طلب کم ہو گی جو بالآخر تجارتی خسارے میں کمی کا سبب بنے گی، مگر یہ دیکھ لیا کہ یہ تصور حقیقت ثابت نہیں ہو سکا۔ درآمدات میں اضافہ اسی طرح جاری ہے اور درآمدات میں اشیائے خور و نوش کے حصے میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ ملکی سطح پر ان اشیا کی پیداوار ضرورت کے مطابق نہیں۔ حکومت کو مہنگائی میں پائیدار کمی کے جامع پروگرام پر عمل کرنا ہو گا تاکہ یہ مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل ہو سکے۔ گزشتہ حکومت صنعتی پیداوار میں اضافے کا کریڈٹ لیتی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ کورونا کی عالمگیر وبا کے باوجود پاکستانی صنعتوں کا ایک حصہ بدستور کام کرتا رہا اور برآمدات کا سلسلہ جاری رہا، مگر صنعتی پیداواری سرگرمیوں اور برآمدات میں اضافے کی ابھی بہت گنجائش ہے اور موجودہ حکومت اس کام کے لیے مؤثر کوشش کر سکتی ہے۔ توانائی کے نرخوں میں کمی کے ذریعے اور یورپ، امریکہ میں مزید برآمدی سہولیات حاصل کر کے پاکستانی برآمدات بڑھائی جا سکتی ہیں۔ ہم مانگ تانگ کر زرمبادلہ کا توازن قائم نہیں کر سکتے، ضروری نہیں کہ ہر بار دوست ممالک کو زحمت دی جائے، اس کے لیے برآمدات کو بڑھانا اور اپنے وسائل پر انحصار کرنا ہو گا۔ ان اقدامات کو عملی شکل دینے کے لیے حکومت کے پاس زیادہ وقت نہیں، مگر یہی بحرانی کیفیت ان سیاسی جماعتوں کا امتحان لے گی جنہوں نے ایک حکومت کو عدم اعتماد کے ذریعے رخصت کیا اور یہ بھاری ذمہ داری اپنے سر لی ہے۔

مصنف کے بارے میں