سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہو گیا ہے

 سافٹ ویئر اپ ڈیٹ ہو گیا ہے

خان صاحب اپنے خطاب میں ہر دو منٹ بعد امریکہ کو یقین دہانی کرواتے رہے کہ وہ امریکہ کے خلاف نہیں ہیں اور پھر امریکہ کی غلامی کا الزام دوسروں پر لگا کر حاضرین جلسہ سے داد بھی سمیٹتے رہے یقینا یہ فن صرف خان صاحب کو ہی آتا ہے ۔گذشتہ ہفتہ لاہور میں تحریک انصاف کے جلسہ میں خان صاحب کا طویل خطاب سننے کو ملا لیکن اس میں کوئی ایک بات بھی نئی نہیں تھی وہی پرانی باتیں جنھیں خان صاحب ایک عرصہ سے بار بار دہراتے رہے ہیں لیکن ریاستی اداروں کے ساتھ مثالی تعلقات ہونے کے باوجود بھی تین سال اور آٹھ ماہ کے دوران کسی ایک سیاسی مخالف پر کوئی ایک کیس بھی ثابت نہ کر سکے اور نہ کوئی ٹھوس ثبوت عدالت میں پیش کر سکے یہی وجہ ہے کہ زرداری صاحب سے لے کر شہباز شریف تک سب کو عدالتوں نے ضمانت پر رہا کیا اور سب سے بڑا لطیفہ تو یہ ہوا کہ میاں محمد نواز شریف کہ جو عمران خان کے دو بڑے دشمنوں میں سے ایک ہیں ۔ اب اس بات کا علم تو خود خان صاحب کو ہی ہو گا کہ انھوں نے پہلے نمبر پر زرداری صاحب کو دشمن رکھا ہوا ہے یا میاں صاحب کو ۔انھوں نے خود اپنے ہاتھوں سے انھیںبیرون ملک جانے کا پروانہ دیا اور بعد میں بقول مراد علی شاہ عوام کو انٹر ٹین کرنے کے لئے ہر تقریر میں کہتے رہے کہ میں کسی کواین آر او نہیں دوں گا ۔ہم نے مخالف کی بجائے دشمن کا لفظ سوچ سمجھ کر استعمال کیا ہے اس لئے کہ ہمارے خیال میں خان صاحب کی سیاسی لغت میں مخالف یا مخالفت کا نام نہیں ہے بلکہ وہ سیاست میں مخالفت کی بجائے دشمنی کے قائل ہیں اور وہ اپنے کارکنوں کو بھی یہی درس دیتے ہیں کہ جو تحریک انصاف سے منحرف ہو جائے تو ان کی مخالفت نہیں کرنی بلکہ ان کے گھروں پر جا کر پٹ سیاپا کرنا ہے اور ان کا سماجی حقہ پانی بھی بند کرنا ہے ۔ کبھی اس طرح کا مقام و مرتبہ الطاف بھائی کو حاصل تھا اور کراچی کے در و دیوار پر لکھا نظر آتا تھا کہ ’’جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حق دار ہے ‘‘۔ اگر اب بھی خان صاحب کی سیاسی فلاسفی کے حوالے سے کسی کو ہماری باتوں سے اختلاف ہے تو وہ خان صاحب کے ان بیانات پرغور کر لے کہ جس میں وہ اپنی اس معصومانہ خواہش کا اظہار کرتے تھے کہ پاکستان میں اگر پچاس بندوں کو لٹکا دیا جائے تو سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن افسوس کہ ان کی یہ خواہش بوجہ پوری نہیں ہو سکی ۔
خیر بات ہو رہی تھی لاہور کے جلسہ کی ، جس سے پہلے کچھ اس طرح کا ماحول بنا دیا گیا تھا کہ تحریک انصاف کے کارکن تو یہ سمجھ رہے تھے کہ اس جلسہ میں خان صاحب حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دیں گے ۔ کچھ کا تو یہ خیال تھا کہ حکومت کو ایک ماہ کا الٹی میٹم دیں گے اور کچھ تو اس امید پر آئے تھے کہ اپنی تقریر کے آخر میں ایک نعرہ مستانہ لگاتے ہوئے جلسہ گاہ سے باہر نکل کر دائیں ہاتھ مڑ کر سیدھا جی ٹی روڈ کا 
راستہ پکڑیں گے اور اسلام آباد چل پڑیں گے اور ساتھ ساتھ ریاستی اداروں کو ہدایات دیتے جائیں گے کہ تمام ایئر پورٹ بند کر دیئے جائیں تاکہ کوئی ملک سے فرار نہ ہو سکے اور تحریک انصاف کا قافلہ ابھی راستے میں ہی ہو گا کہ چناب کے پل پر تمام ریاستی اداروں کے سربراہ خان صاحب کو اکیس توپوں کی سلامی کے بعد اپنے ہمراہ وزیر اعظم ہائوس اسلام آباد لے کر جائیں گے لیکن افسوس کہ نہ حکومت کو کوئی وارننگ جاری کی گئی اور نہ ہی کچھ اور بلکہ وہی پرانی کیسٹ جو خان صاحب کے دماغ میں شروع دن سے فٹ ہے اسی کہ دہراتے رہے اور ہم حیرانگی کے عالم میں ان باتوں کو سنتے رہے ۔ غور کریں تحریک انصاف کے جن رہنمائوں کے خلاف ایف آئی اے انکوائریاں کر رہی ہے ان کے خلاف تحریک انصاف کے رہنما اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کر رہے ہیں اور یہ نہیں کہا جا رہا کہ انھیں گرفتاری کا ڈر رہے لہٰذا ان کی قبل از گرفتاری ضمانت منظور کی جائے بلکہ عدالت سے استدعا کی جا رہی ہے کہ جو ریاستی ادارے انکے خلاف تحقیقات کر رہے ہیں انھیں تحقیقات کرنے سے روکا جائے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ تحقیقات سے روکنے کا حکم جاری بھی ہو جاتا ہے ۔ایک طرف تحریک انصاف کا یہ رویہ ہے کہ اس کے رہنمائوں کے خلاف تحقیقات بھی ان کے مزاج کو برہم کرنے کا سبب بنتی ہیں اور دوسری طرف خان صاحب کے بھاشن کہ انصاف کے معیار سب کے لئے یکساں ہونے چاہئیں  اور جہاں ایسا نہیں ہوتا وہ معاشرے تباہ ہو جاتے ہیں تو جناب آپ تو تحقیقات تک نہیں ہونے دیتے عدالتوں تک کیس جانا اور پھر اس پر انصاف کے تقاضوں کی جانچ تو بڑی دور کی بات ہے ۔اپنے دور حکومت میں سب سے زیادہ قرضے لے کر اور غیر ملکی شہریت رکھنے والوں کو مشیر بنا کر دوسروں کو غلامی کے طعنے دینا خان صاحب کے کمال ہنر کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔  
ڈھٹائی کسے کہتے ہیں کہ شہباز گل دو روزہ جسمانی ریمانڈ کے بعد عدالت میں پیش ہوئے تو بالکل ٹھیک ٹھاک ہٹے کٹے تھے اور نظر بھی آ رہے تھے اور ساتھ میں ان کا میڈیکل سرٹیفیکیٹ بھی پیش کیا ۔ عدالت نے ان کے مزید ریمانڈ کی درخواست منظور نہیں کی اور انھیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا اور اڈیالہ جیل پنجاب حکومت کے کنٹرول میں ہے لیکن مسلسل بیانات آ رہے ہیں کہ ان پر تشدد کیا گیا اور ہم یہ معاملہ بین الاقوامی سطح پر اٹھائیں گے اور خان صاحب نے تو حد کر دی کہ شہباز گل پر میرے خلاف بیان دینے کے لئے برہنہ کر کے تشدد کیا جا رہا ہے لیکن پنجاب کے وزیر داخلہ ہاشم ڈوگر نے شہباز گل سے ملاقات کے بعد کہا کہ وہ بالکل ٹھیک ہیں اور برہنہ کر کے تشدد کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کہتے ہیں کہ جادو وہ جو سر چڑ ھ کر بولے اور واقعی خان صاحب کے جھوٹ کا جادو اس وقت سر چڑھ کر بول رہا ہے لیکن اب لگ ایسے رہا ہے کہ خان صاحب کا سافٹ ویئر اپ ڈیٹ کر دیا گیا ہے اب کہاں سے ہوا یہ معلوم نہیں اسی لئے اب خان صاحب کی تقاریرمیں ہر طرح کی گھن گرج یقینا نظر آ رہی ہے لیکن وہ لانگ مارچ والی باتیں نہیں ہو رہیں اور قوی امید ہے کہ نومبر کے مہینے میں تعیناتی کا مرحلہ بخیر و خوبی سرانجام پا گیا تو قبل از وقت انتخابات کے واویلہ سے بھی قوم کی جان چھوٹ جائے گی اور ملکی ماحول کچھ شانت ہو جائے گا کہ جس سے سیاسی اور معاشی استحکام میں مدد ملے گی ۔ عمران خان تو جو کر رہے ہیں وہ انھوں نے کرنا ہی ہے لیکن حکومت کو بھی کچھ عقل کرنی چاہئے کہ ڈالر کا ریٹ کم ہو رہا ہے اور عالمی منڈی میں تیل سستا ہو رہا ہے لیکن انھوں نے پیٹرول بجائے سستا کرنے کے اس کی قیمت میں مزید اضافہ کر دیا ہے جسے عوام تو کیا خود میاں نواز شریف اور مریم نواز نے بھی اس اضافہ کو مسترد کر دیا ہے تو سوچیں کہ عوام پر اس کاکتنا منفی تاثر گیا ہو گا ۔ یہ تو سیدھا اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ پنجاب اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں تو شکست ہوئی ہے لیکن اگر یہی حال رہا تو قومی اسمبلی کے 9حلقوں سے شکست میں بھی کوئی رکاوٹ نہیں رہے گی۔

مصنف کے بارے میں