عمران خان، پرویز الٰہی رومانس

عمران خان، پرویز الٰہی رومانس

عمران خان اور پرویز الٰہی کا رومانس کتنی دیر تک چلتا ہے اس بارے میں صرف یہی کہا جا سکتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو کتنی دیر تک برداشت کرتے ہیں۔ دونوں کی سیاسی مجبوریاں ہیں اور ان کی وجہ سے ہی دونوں ایک ہیں۔ پرویز الٰہی اور عمران خان میں کوئی قدر مشترک نہیں ہے۔ پرویز الٰہی ایک ڈیرے دار سیاستدان ہے اور اقتدار کی غلام گردشوں میں ہونے والی سرگوشیوں کو سننے کی اہلیت بھی رکھتا ہے۔ اس کے پاس اندر کی خبر ہوتی ہے۔ وہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کا ہنر جانتا ہے لیکن پی ٹی آئی انہیں اپنے طریقے سے چلانے کی کوشش کرے گی تو شاید اس کے لیے بھی عمران خان کے ساتھ چلنا شروع ہو جائے۔
یہ استدلال بھی موجود ہے کہ پرویز الٰہی کو عمران خان کے ساتھ اس لیے جوڑا گیا ہے کہ  وہ عمران خان کو جو نظام سے باہر نکل رہے تھے پرویز الٰہی انہیں نظام کے اندر لانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور وہ ایسا کر بھی رہے ہیں۔ فوج کے خلاف عمران خان کے اندر جو زہر موجود تھا اس کا اثر کم ہونا شروع ہو گیا ہے۔ مطلب انٹی ڈاٹ ڈوز نے کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ پرویز الٰہی نے ایک انٹرویو میں بھی یہ بات کہی تھی کہ وہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے معاملات ٹھیک کرا رہے ہیں۔ پہلے یہ کام شیخ رشید، اسد عمر اور پرویز خٹک کرتے رہے ہیں۔ لاہور والے جلسہ میں پرویز الٰہی نے یہ اعلان بھی کر دیا کہ انہوں نے عمران خان کے فوج کے ساتھ معاملات ٹھیک کرا دیے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لاہور والا جلسہ پرویز الٰہی کا شاندار شو تھا۔ عمران خان کو یہ احساس ہونا شروع ہو گیا ہے کہ پنجاب میں ان کی حکومت ہے۔ پرویز الٰہی نے اپنی مرضی کی کابینہ بنانے کے بجائے عمران خان کو کابینہ کے اراکین کے انتخاب کا کام سونپ دیا اور انہوں نے ہی یہ فیصلہ کیا کہ کون کون کابینہ کا حصہ بنے گا۔ عمران خان نے پرویز الٰہی کو ٹیسٹ کرنے کے لیے جان بوجھ کر مسلم لیگ ق کو کابینہ میں شامل نہیں کیا۔ اب صورتحال دلچسپ بن چکی ہے کہ پرویز الٰہی بھی اپنے معاونین خصوصی کا تقرر کر رہے ہیں۔  عمران خان اگر ان کے ہر کام میں روڑے نہ اٹکائیں تو پرویز الٰہی میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ پنجاب کے اندر گورننس کو بہتر کر سکیں۔
عمران خان کو ایک اچھا حلیف ملا ہے تو وہ ان سے کام لیں۔ تحریک انصاف کی حکومت ان کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلانا چاہتی ہے۔ پنجاب کے اندر جس طرح تبادلے ہو رہے ہیں اس کے بعد کیا پولیس وقت آنے پر ان کے احکامات کو تسلیم کرے گی؟ بیوروکریسی تو پہلے ہی عمران خان کی شاہانہ طبیعت کی وجہ سے ناراض ہے اب پولیس کو نیچے کی سطح تک 
تبدیل کر کے یہ تاثر پھیلا جا رہا ہے کہ جو تبدیل ہوئے ہیں وہ ن لیگ سے تعلق رکھتے ہیں کہ انہوں نے اس وقت کی حکومت کا حکم مانا تھا۔ یوں جان بوجھ کر پولیس کو دو کیمپوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے اور یہ تھانے اور ایس ایچ او کی سطح پر ہو رہا ہے۔ اس سے صوبے میں امن و امان کی بحالی میں شدید مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ عمران خان ان پر اعتماد کریں انہیں اپنی مرضی سے ٹیم تشکیل دینے دیں اور پھر ان سے نتائج مانگیں تو وہ بہتر ڈیلیور کر سکیں لیکن اگر انہیں سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے استعمال کیا جانے لگے گا اور ان کے ذریعے اپنے سیاسی مخالفین کو تنگ کرنے کا کام کیا جائے گا تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔
شہباز گل کی گرفتاری کے معاملے پر بھی پی ٹی آئی پرویز الٰہی سے ناراض نظر آ رہی ہے اور پرویز الٰہی بھی اس پر بے چین ہوئے ہیں۔ شہباز گل نے جو کچھ کہا پرویز الٰہی کے سیاسی نظریات اس سے یکسر مختلف ہیں۔ پرویز الٰہی نے نہ صرف فوری طور پر اس بیان کی مذمت کی بلکہ پی ٹی آئی کی قیادت سے بھی کہا کہ وہ شہباز گل کے بیان سے خود کو الگ کریں۔ پی ٹی آئی نے اس وقت ان کی بات نہیں سنی تھی مگر اب انہیں احساس ہونا شروع ہوا ہے اور یو ٹرن کے بادشاہ نے شہبازگل کے معاملہ پر اپنا موقف تبدیل کیا ہے۔ پہلی اسٹیج پر کہا گیا کہ شہباز گل نے کیا کیا ہے باقی لوگ بھی یہ کہتے رہے ہیں۔  قانون کے مطابق ان کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے اب عمران خان نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ شہباز گل کو ننگا کر کے مارا جا رہا ہے۔ شہباز گل کو یہ نہیں کہنا چاہیے تھا ان کے بیان سے لگتا ہے کہ ہم فوج کو اندر سے اکسا رہے ہیں۔ مہاتما آہستہ آہستہ سب مانے گا۔ پولیس نے شہباز گل کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اس کے بعد عمران خان کے چہرے پر خوف کی کیفیت صاف نظر آرہی ہے۔ عمران خان کو محسوس ہونا شروع ہو گیا ہے کہ ان کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جا رہا ہے۔
شہبازگل کے معاملہ پر عمران خان اور پی ٹی آئی نے وزیراعلی پنجاب کو بائی پاس کر کے آئی جی جیل خانہ جات اور ایڈیشنل ہوم سیکرٹری سے کہا کہ وہ پی ٹی آئی کے احکامات کو مانیں دونوں نے احکامات کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں کچھ بھی کہنا ہے کہ تو پرویز الٰہی سے کہیں وہ پی ٹی آئی کے ماتحت نہیں بلکہ وزیر اعلی کے احکامات کے پابند ہیں۔ پنجاب کے وزیر داخلہ ہاشم ڈوگر نے اڈیالہ جیل کا دورہ کیا اور عمران خان کے اس بیان کی تردید کر دی کہ اڈیالہ جیل میں انہیں ننگا کر کے تشدد کیا گیا ہے۔
شہباز گل پر تشدد ہوا ہے اور اس کی تصدیق حامد میر نے بھی کی ہے۔ ہاشم ڈوگر اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں کہ شہبازگل کو بند چکی میں رکھا گیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ ہاشم ڈوگر صاحب اپنے قائد سے یہ حقائق کیوں چھپا رہے ہیں۔ حامد میر نے کہا کہ شہبازگل پر تشدد ہوا اور جسم کے ان نازک اعضا پر تشدد کیا گیا کہ وہ نہ دکھا سکتے ہیں نہ بتا سکتے ہیں۔ شہباز گل عمران کی محبت میں یہ سب کچھ کیا ہے مگر عمران نے انہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ اگر وہ شہباز گل کے ساتھ کسی منصوبے میں شامل نہیں ہیں تو شہباز گل کے ڈرائیور، ان کے لیپ ٹاپ اور موبائل فون کو پولیس کے حوالے کریں تاکہ شہباز گل پر تشدد کا سلسلہ بند ہو سکے۔ شہباز گل کو دوبارہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے اب ان کو مزید جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی تشدد کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ہم نے بات کی تھی کہ پرویز الٰہی اور عمران کا رومانس کتنی دیر تک چلے گا۔ عمران خان کو چاہیے کہ ان پر اعتماد کریں اور انہیں کام کرنے کی آزادی دیں۔ پرویز الٰہی نے پہلے بھی پنجاب میں ایسے منصوبے شروع کیے تھی جن کی مثال آج بھی دی جاتی ہے۔ انہیں کام کرانا اور کام لینا آتا ہے۔ واقفان حال کے مطابق پی ٹی آئی نے دھمکی دی ہے کہ اگر پرویز الٰہی نے ان کے احکامات سے پہلو تہی کی تو ان کی نیچے سے سیڑھی کھینچ لی جائے گی لیکن انہیں یہ علم نہیں کہ پرویز الٰہی کو شائد کم نقصان ہو گا مگر پی ٹی آئی کو اس سے زیادہ نقصان ہو گا۔ 

مصنف کے بارے میں