مسلمانوں کی فہرستیں ترتیب دینے سے فیس بک کا انکار

مسلمانوں کی فہرستیں ترتیب دینے سے فیس بک کا انکار

نیویارک: فیس بک نے نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مسلمانوں کی فہرستیں ترتیب دینے میں مدد فراہم کرنے کی تجویز کو مسترد کردیا۔

دی انٹر سیپٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ فیس بک نے ایک جاری بیان میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مسلمانوں کی فہرستیں تیار کرنے میں مدد فراہم کرنے کی تجویز کو مسترد کردیا۔

فیس بک کے ترجمان کا کہنا تھا کہ 'کسی نے ہم سے مسلمانوں کی رجسٹری کرنے کو نہیں کہا، اور یہ واضح ہے کہ ہم ایسا نہیں کرنے جارہے'۔اس اعلان کے بعد فیس بک اور ٹوئٹر دنیا کی واحد دو کمپنیاں ہیں جنھوں نے مسلمانوں کی فہرست بنانے کے غیر آئینی اور سخت گیر عمل کو کرنے سے انکار کردیا ہے۔

یاد رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اس سے قبل بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کئی بیانات دے چکے ہیں، جن پر انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ایک بیان میں انہوں نے مسلمانوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کرنے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔ڈونلڈ ٹرمپ کو اس طرح کے بیانات پر نہ صرف دنیا بھر کے بلکہ امریکا کے سیاسی رہنماؤں کی جانب سے بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

واضح رہے کہ ارب پتی امریکی تاجر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم شروع سے اب تک مسلمانوں کیخلاف بیان بازی سے بھری پڑی ہے، 7 دسمبر 2015 کو سین برنارڈینو حملے کے بعد انہوں نے مسلمانوں کے امریکا میں داخلے پر مکمل پابندی کا مطالبہ کیا تھا۔یہ بھی یاد رہے کہ 13 جون کو اورلینڈو حملے کے بعد بھی انہوں نے دہشتگردوں کے امریکا داخلے پر پابندی کی بات کی تاہم انہوں نے اس بار مسلمانوں کا نام نہیں لیا۔

اس کے علاوہ ڈونلڈ ٹرمپ نے 2 دسمبر 2015 کو ریاست کیلی فورنیا شوٹنگ کے واقعے میں 14 امریکیوں کی ہلاکت کے بعد، امریکا میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی کی تجویز دی تھی۔اب ان کا یہ بیان سامنے آیا ہے کہ وہ ممالک جن کا دہشتگری سے تعلق نہیں وہاں موجود مسلمان امریکا آسکتے ہیں، انہوں نے یہ بیان اسکاٹ لینڈ میں دیا جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اسکاٹ لینڈ کے مسلمان کو امریکا آنے دیں گے۔

واضح رہے کہ صدارتی انتخاب کے لیے اپنی انتخابی مہم کی خود ہی فنڈنگ کرنے والے ارب پتی تاجر ڈونلڈ ٹرمپ کو مسلمانوں کے داخلے پر پابندی کے حوالے سے بیان اور میکسیکو سے ہجرت کرکے امریکا آنے والوں کو ’مجرم‘ اور ’ریپسٹ‘ کہنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان کی مسلمانوں پر پابندی کی تجویز کی ناصرف حکومتی اراکین، بلکہ ان کی اپنی پارٹی کے ساتھیوں نے بھی مذمت کی تھی۔