پردہ آنکھوں سے ہٹانے میں بہت دیر لگی

پردہ آنکھوں سے ہٹانے میں بہت دیر لگی

مغرب نے پوری دنیا کو اپنی مٹھی میں لینے کا عمل چھ صدیوں سے جاری رکھا ہے۔ پچھلے دور میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی صورت تجارت کی آڑ میں ملکوں پر قبضے کیے۔ جنگ اور سیاست کی آمیزش سے ملکوں پر استبدادی تسلط قائم کیا۔ خلافت عثمانیہ توڑکر آپس میں بندربانٹ کرکے، مسلم علاقوں کی آزادی سلب کرکے انہیں محکوم بنایا۔ بعدازاں جنہیں آزادی بھی دی تو اپنے گماشتے نسل در نسل بٹھاکر ریموٹ کنٹرول غلامی کو قائم ودائم رکھا ضابطے سے ان کے یہ فلسفے اور تھیوریاں پروان چڑھیں کہ ’سفید فام نسل چنیدہ، اعلیٰ وبرتر ہے۔‘ (بنیاد سیرت وکردار، صلاحیت نہیں،گورے کے گھر پیدا ہونا ہے!) اس نسلی برتری کے تحت سفید فام کی ذمہ داری (White Man's Burden) کا باضابطہ یہ فرض عین جانا گیا کہ باقی درجہ بہ درجہ کمتر مخلوق، پیلے (چینی، جاپانی) بھورے (ایشیائی) اور سیاہ فام کو تہذیب کے دائرے میں لانا گورے کا حق بھی ہے اور فرضِ منصبی بھی۔ ان کمتر نسلوں پر حکمرانی کرنا، ان کے وسائل لوٹنا اور اپنے زیر استعمال لانا عین مطلوب ہے۔
 گورے کی عالمی حکمرانی کے لیے جنگوں  کے ساتھ مواصلاتی ذرائع کی ترقی نے کام آسان کردیا۔ دنیا گلوبل ولیج بن گئی۔ سمٹ کر اسباقِ غلامی چھوٹی بڑی کالی اسکرینوں پر چھا گئے۔ گھر کے چوراہے (لاؤنج …… جسے ٹی وی لاؤنج کہتے ہیں۔ قرآن لاؤنج نہیں!) کی دیوار پر ایستادہ سیاہ فام اسکرین سے لے کر ہتھیلی پر دھرے شطونگڑے تک۔  اب قربانی طلب جنگوں کی جگہ ڈرون طیارے، جنگی طیاروں کے پائلٹ محفوظ طریقے سے قوموں کو بھاری بھرکم اسلحہ برساکر منٹوں میں سب ملیامیٹ کرکے رکھ دیتے ہیں (ہیروشیما، ناگاساکی)! تہذیبی غلبہ اور دل دماغ پر مکمل قبضے کے لیے ٹھیکا ہالی وڈ بالی وڈ نما شوبز کے بڑے مراکز کے پاس ہے۔ جہاں شیطانیت پوری زورآوری کے ساتھ ابلیسی وعدے پورے کرتی دیکھی جاسکتی ہے۔
 اس وقت دنیا میں اخلاقیات اور آسمانی تہذیب کے سبھی محرمات، ممنوعات یکجا کرلیجیے تو یہ عالمی، گلوبل تہذیب مرتب ہوتی ہے۔عالمی تہذیب کی گراوٹ میں انسانی ضمیر کے خلاف جنگ کے محاذ دیکھیے۔ اس میں شوبز جس کے تحت میک اپ اور فیشن کی صنعت، عورت کو جنسِ بازار، ’شوپیس‘ بنا دینا، اس کی ذہنی ساخت اور فطرت کو تعلیم، فلسفوں تھیوریوں سے بدل ڈالنا۔ مساوات اور آزادی کے نام پر گھر خاندان کا شیرازہ بکھیر دینا۔ ہالی وڈ پوری تہذیب پر ہمہ گیر ہمہ نوع شیطانی،ابلیسی حملوں کا ہیڈکوارٹر ہے۔ بے انتہا مزین کردہ گناہ۔ فلمیں تاک کر ہر موضوع پر ذہن سازی، برین واشنگ کے حوالے سے۔ بچوں کے کارٹون سے لے کر سیاسی، جنگی، نظریاتی موضوعات تک کا احاطہ کرتی ہوئی۔ اصطلاحات میں ’سیلبیرٹی‘ (Celebrity) قابلِ دید لائقِ تقلید بڑی معروف شخصیات، ان کے دمکتے تعارف، دنیا کی نگاہوں کا مرکز۔ نوجوانوں کے لیے آنکھوں میں بستے خوابوں کی دنیا پر حکمران، ان جیسا بننے کی خواہش نے تصورات، معیارات اور مقاصدِ زندگی پر خودکش حملہ کیا۔ 
سعودی، اماراتی نوجوانوں کی قلب ماہیت کی ہولناک وڈیوز اسی کی عکاس ہیں۔ مسلمان ممالک کو بمباریوں نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا جو انہیں فلموں کی دنیا میں ڈبکی دے کر یہ ذوق وشوق ان کے رگ وپے میں بھر دیا گیا۔ کچھ مسلم ممالک پر جنگیں مسلط کرکے بموں، کیمیائی حملوں سے تباہ کیا گیا۔ افغانستان،عراق، یمن، شام جیسے، باقی پر نظریاتی، فکری، ثقافتی ’بمباری‘ کرکے بھوسا بنایا۔ اسی کے مظاہر قطر میں بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ بھارتی ہالی ووڈ اداکارہ دیپکا کا فٹ بال ٹورنامنٹ میں مہمان خصوصی بن کر آنا پوری دنیا کی نگاہوں اور خبروں کا مرکز ہے۔ ورلڈ کپ ٹرافی کی نقاب کشائی جو پوری دنیا میں سب سے زیادہ ذوق وشوق سے دیکھے جانے والا مرحلہ ہوتا ہے، وہ 18 دسمبر کو دیپکا کو پورے عالم میں نشر کرے گا۔ ابتداء بھی ہالی ووڈ اداکارہ نورافتحی سے ہوئی بھارتی جھنڈا لہراتی، اور انتہا بھی سب سے بھاری قیمت وصول کرنے والی بھارتی اداکارہ سے۔ کشمیر حیرت زدہ تک رہا ہے بھارتی پذیرائی پر؟
دنیا بھر کے نوجوانوں کے دل ودماغ پر نقب لگانے، ان کی سوچوں، مستقبل کی صورت گری کا رخ موڑنے کو دوسرا بھاری محاذ کھیل کا ہے۔ کھیل ایک صحت مند سرگرمی ہے، لیکن شیطان نے اسے اغوا کرکے کھیل کو فی نفسہٖ سہ آتشہ بنا دیا ہے۔ پیشہ وری نے اس میں بے پناہ پیسہ (جوّا، سود) بنانے کے مواقع دیے۔ شہرت کی دیوانگی، عورت یہاں بھی موجود۔ دنیا میں دلوں پر حکمرانی آج اداکار، ماڈلز اور کھلاڑیوں کی ہے۔ پھر یہ سیرت وکردار کیسا ہے۔ ایک نمونہ دیکھ لیجیے جو رشک سے بھرکر دیکھا گیاجاتا ہے۔ کرسٹینورونالڈو، پرتگالی فٹ بال ٹیم کا کپتان۔ فٹ بال کی دنیا کا بہت بڑا ہیرو۔ غریب ترین حالات سے نکل کر آج  دولت، شہرت اس کی گھر کی لونڈی ہے۔ 20 سے زیادہ شاندار مہنگی ترین گاڑیوں کا مالک۔ پانچ سال ایک عورت (روسی سپر ماڈل) کے ساتھ بلانکاح (کیتھولک ہونے کے باوجود) زندگی گزارنے کے بعد دوسری ماڈل عورت جارجنیا کے ساتھ بھی حرام زندگی نبھا رہا ہے۔ ورلڈ کپ میں یہ عورت 1.8 ملین پاؤنڈ کے ہیروں بھرے زیورات پہنے دنیا کو چکاچوند دکھاکر چندھیا رہی تھی۔  رونالڈو کے 5 بچے ہیں۔ تین بچے کرائے کی ماؤں سے اور دو بچے بے نکاحی ’بیویوں‘ (پارٹنرز) سے۔یہ ہے گلوبل اخلاقیات جسے دنیا بھر کے جوانوں کے لیے مرکز نگاہ بنایا گیا ہے! کھیل میں پیسہ، شراب، جوّا، رنگ رلیاں عالمی طور پر لازم وملزوم ہیں۔ ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے ’کھیل ہے‘ / جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے! 
 دینِ فطرت، اسلام فطری د۱عیے کچلتا روندتا نہیں ہے۔ تہذیب وتربیت، توازن کے ساتھ ان کا اہتمام کرتا ہے۔ مسلمان مرد، مضبوط ایمان، مضبوط اخلاق وکردار سے مزین صحت مند مضبوط جسم کا حامل ہوتا ہے۔ کھیلوں میں سے ان کا انتخاب وہ کھیلیں ہوتی ہیں جو کم وقت میں جسم کو مضبوط کرنے والی ہوں۔ کھیل میں پیسہ نہیں ہوتا، شہرت کے لیے نہیں کھیلا جاتا۔ کھیل پیشہ یا مقصدِ زندگی نہیں ہوتا۔ یہ صرف لہو ولعب سے پاک، پاکیزہ تفریح اور مضبوط جسم فراہم کرتا ہے۔ مسلمان  کی ثقافت طاؤس ورباب، رقص وسرود نہیں شمشیر وسنان کی ہوا کرتی ہے۔ وہی سب جو شیطانیت میں لتھڑا ہوا آج دنیا تباہ کر رہا ہے، پاکیزگیئ کردار لیے، صلاح وفلاح کے ساتھ ہمارا سرمایہئ فخر ہے۔  
 المیہ یہ ہے کہ آج کا مسلمان نوجوان، اسلام کے ساتھ اس عالمی کھیل کلچر کا تڑکا لگاکر اس ملغوبے میں رنگا جارہا ہے۔ فٹ بال، کرکٹ کلب، تن سازی، ہیوی بائیک، بے پناہ پیسے کا خواب، گاڑیوں کا دیوانہ شوق/ حسرت۔ اس کے ساتھ ایمان، اسلام، داڑھی بھی ہوسکتی ہے۔ چپڑی اور دو دو، مگر مخمل میں ٹاٹ کا پیوند ہے یہ! نگاہوں سے اسداللہ، سیف اللہ (سیدنا علیؓ، خالد بن ولیدؓ) ہٹاکر گلوبل ولیج ہیرو جچ گئے۔
 قطر میں اسلام کی دعوت دنیا تک پہنچانے کے اہتمام کیے گئے۔ ایک طرف دنیائے کفر کے تماشائی یا ہمارے سیکولر، رات 2 بجے تک وہاں بڑی اسکرینوں پر میچ دیکھتے، کنسرٹ چل رہے ہوتے۔ اور جب یہ مخلوق رت جگے کے بعد سونے کی تیاری میں ہوتی تو دوسری طرف دوحہ اذانوں سے گونج اٹھتا۔ عبادت گزار مساجد کی طرف لپکتے۔ 30 لاکھ آبادی اور 2 ہزار سے زائد مساجد، خوبصورت اذانیں، روح پرور قرأت، رکوع و سجود! یکسر مختلف تہذیب دنیا کے سامنے آئی۔ پہلی مرتبہ مسلم ملک کو دنیا نے قریب سے دیکھا۔ حلال خوراک کا ہر جا اہتمام بھی مسلمانوں کے لیے سہولت کا باعث رہا۔ قطر میں شرح جرائم بہت کم ہے۔ لہٰذا مغربی ممالک کی طرح یہاں جیب تراشی یا لوٹے جانے کی فکر لوگوں کی نہ ہوئی۔ غیرملکیوں نے کہا یہاں ہم بہت محفوظ ہیں، پچھلے ایسے مواقع کی نسبت۔ تقریباً 10 لاکھ افراد آئے ہیں۔ جابجا خوبصورت آفاقیت، بین الاقوامیت کی روح لیے احادیث، قرآنی آیات، 8 زبانوں میں ترجمے کے ساتھ آویزاں تھیں۔ 2 ہزار مرد و زن (تربیت یافتہ) اسلام بارے تعلیم دینے کو مساجد و دیگر مقامات پر موجود تھے۔ ایک مسجد میں نوجوان مبلغ مغربی مرد و زن کے اسلام، مسجد، نماز بارے سوالات کے شافی جوابات دے رہا تھا۔ (فٹ بال کے شانہ بہ شانہ شیطان بھی نشانے پر تھا۔) ڈاکٹر ذاکر نائیک بھی اپنا کام کررہے ہیں۔ 
قطر ورلڈ کپ انسانیت کے لیے ایک بہت بڑے بحالیئ صحت (دماغی، نفسیاتی) مرکز کا ضمناً سامان کر رہا تھا۔ بحالیئ صحت مراکز (Rehab.Centre) میں منشیات کے مریض، نشہ چھڑانے کو داخل کیے جاتے ہیں۔ قطر نے شراب، LGBTQ، نوعیت کے کئی نشے اور لت چھڑانے اور بہتر زندگی کے چلن دکھانے کا اہتمام کیا۔ مغرب جو خودساختہ White Man's Burden (سفید فام کی ذمہ داری) کا بوجھ لادے پھر رہے تھے، انہیں اس سے سبک دوش کردینے کا وقت آگیا ہے۔ کیونکہ سفید فام چودھری اب ’انسان‘ کی تعریف پر پورے نہیں اُترتے۔ فرد جرم بہت طویل ہے۔ سٹیلائیٹ، میڈیا خبر کی دنیا کے سارے وسائل و ذرائع ان کی مٹھی میں رہے۔ سو یہ یک چشم، کانے دجال کی دنیا ہے  اعصاب شل کر دینے والے پروپیگنڈے کے بل پر اسلام پر یکطرفہ یلغار کرکے دنیا کو خیرِکل آب حیات سے محروم کیے دے رہے تھے۔ محض حادثتاً قطر ورلڈ کپ برپا ہوگیا اور دنیا نے پہلی مرتبہ تصویر کا دوسرا رخ، (اگرچہ ادھورا) دیکھا۔
پردہ آنکھوں سے ہٹانے میں بہت دیر لگی
ہمیں دنیا نظر آنے میں بہت دیر لگی