امریکہ سے کہہ دیاآپ کی مشکل توقعات نبھا دی ہیں، مگر ہماری توقعات کا کیا ہوا؟،شاہ محمود قریشی

 امریکہ سے کہہ دیاآپ کی مشکل توقعات نبھا دی ہیں، مگر ہماری توقعات کا کیا ہوا؟،شاہ محمود قریشی


 واشنگٹن:وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں ہے، اقوام متحدہ کے سربراہ نے بھارت کے مئوقف کی نفی کی ہے۔ ہمیں پریشانی ڈیموگریفک تبدیلی کی ہے،-A 35کی ہے جس کے ذریعے  وہ ڈیموگریفک تبدیلی اور ایک اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس پر ہمیں تشویش ہے اور اس پر ہم بات کررہے ہیں اور میں امریکہ سے بالکل کہوں گا کہ  وہ اس حوالے سے اپنی سوچ کے زاویے کو تبدیل کرے۔ امریکی وزیر خارجہ  مائیک پومپیو سے کہا کہ اگر بھارت نے فالس فلیگ آپریشن کیا تو پاکستان جواب دے گا۔

امریکہ سے کہہ دیاآپ کی مشکل توقعات نبھا دی ہیں، مگر ہماری توقعات کا کیا ہوا؟، پاکستان افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لے آیا۔ امریکہ نے افغان طالبان کی بااختیار کمیٹی کا مطالبہ کیا جو پوراہوا۔ دوامریکی مغویوں کی بازیابی میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا۔

مائیک پومپیو کو بتایا کہ کسی تنازعہ کا حصہ نہ بننا چاہتے ہیں اور نہ ہمیں بننے کی خواہش ہے ، وزیر اعظم عمران خان نے اس حوالہ سے اپنا ایک واضح مئوقف پیش کردیا ہے کہ ہم امن کے لئے شراکت دار بن سکتے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار شاہ محمود قریشی نے واشنگٹن میں پاکستانی سفیر ڈاکٹر اسد مجید خان کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔  انہوں نے کہا کہ انہوں نے امریکی صدر کے مشیر برائے قومی سلامتی رابرٹ اوبرائن اور وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے ملاقاتیں کیں۔

شاہ محمود قریشی کے مطابق امریکی وزیر خارجہ نے کوئی نیا مطالبہ نہیں کیا۔جب امریکی وزیر خارجہ 2018میں پاکستان تشریف لائے تھے تو میں نے ان سے کہا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو ری سیٹ کرنے میں میں دلچسپی رکھتا ہوں، اس پر پومپیو نے کہا تھا کہ پاکستان سے متعلق امریکی پالیسی میں تبدیلی ہو گی تو براستہ کابل ہو گی ۔ پومپیو سے کہا کہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کردار ادا کیا ، دو امریکی یرغمالیوں کی بازیابی میں مدد کی گئی ، آپ کی مشکل توقعات نبھا دی ہیں، مگر ہماری توقعات کا کیا ہوا؟امریکہ کو پاکستان کے حوالہ سے اپنی ٹریول ایڈوائزری پر نظرثانی کرنی چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ نے ہم سے مطالبہ کیا کہ طالبان کو قائل کرکے میز پر لے آئو تو ہم لے آ ئے، پھر ہم سے کہا گیا کہ ہمارے دو افراد بڑے عرصہ سے قید ہیں اگر ان کا چھٹکارہ ہو جائے تو بڑا اچھا ماحول بنے گا اور 72نشستوں کے بعد خدا کے فضل وکرم کے ساتھ اس میں بھی ہمیں کامیابی ہوئی۔ ہم سے آپ نے جو توقعات کی تھیں وہ آسان نہیں تھیں ، مشکل تھیں ہم نے انہیں نبھا دیا، کچھ ہماری توقعات بھی تھیںاس پر آپ کی پیشرفت کیاہے۔

انہوں نے کہا  کہ امریکہ سے کہا ہے کہ پاکستان کے حوالہ سے اپنی ٹریول پالیسی پر نظر ثانی کرے، اس کی ٹریول ایڈوائزری پاکستان میں سیاحت کے حوالہ سے رکاوٹ ہے۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ انہوں نے امریکی وزیر خارجہ کو مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے بھی آگاہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں، سلامتی کونسل کا اجلاس کشمیر کا عالمی مسئلہ ہونے کا واضح ثبوت ہے۔

اگر بھارت کہتا ہے کہ کشمیر ان کا اندرونی اور دو طرفہ معاملہ ہے تو پھر عالمی فورم پر جانے کی ضرورت ہی نہیں تھی، گیا، اس کا مطلب ہے تسلیم ہوا کہ یہ ایک عالمی سطح پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے اس کا اعتراف کیا۔ ہمیں پریشانی ڈیموگریفک تبدیلی کی ہے،-A 35کی ہے جس کے ذریعے وہ ڈیموگریفک تبدیلی  اور ایک اکثریت کو اقلیت  میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس پر ہمیں تشویش ہے اور اس پر ہم بات کررہے ہیں اور میں امریکہ سے با لکل کہوں گا کہ وہ اپنی عینک کے چشمہ کا نمبر ذرہ تبدیل کریں ۔

ا نہوں نے کہا  کہ امریکی وزیرخارجہ کو تشویش سے آگاہ کیا کہ بھارت کی کسی حرکت سے خطہ متاثر ہو سکتا ہے۔پانچ ماہ میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مقبوضہ کشمیر پر دوسری نشست ہونا بھارتی مئوقف کی نفی ہے کہ یہ اس کا اندرونی معاملہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خدشہ یہ ہے کہ بھارت کوئی فالس فلیگ آپریشن نہ کرے ، اور اگر وہ فالس فلیگ آپریشن کرتا ہے تو ہمیںنہ چاہتے ہوئے اس کا بروقت اور مناسب جواب دیناہو گا۔

 آج قدغن بھارت میں ہے، مقبوضہ کشمیر میں نماز جمعہ کی اجازت نہیں دی جارہی،ہمارے ہاں آجائیں دیکھیں مندروں میں کوئی رکاوٹ ہے، گرجاگھروں میں کوئی رکاوٹ ہے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر پاکستان کا ارادہ ثالثی کا نہیں ، مقصد کشیدگی کا خاتمہ ہے، امن کے لئے کردار ادا کرنے کو تیارہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایران کا کہنا ہے کہ وہ کشیدگی کا خاتمہ چاہتا ہے ، ایران جنگ میں الجھ کر امہ کو کمزورنہیں کرنا چاہتا۔ سعودی عرب نے بھی یہی کہا ہے کہ وہ امہ کی تقسیم نہیں چاہتا۔