حکومت کا براڈ شیٹ سے متعلق دستاویزات پبلک کرنے کا فیصلہ

Government decides to publish documents related to Broadsheet
کیپشن: فائل فوٹو

اسلام آباد: معاون خصوصی برائے داخلہ واحتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ ایک چیز واضح ہوتی ہے کہ ماضی کی ڈیلز اور این آر او کا خمیازہ عوام کو بھرنا پڑ رہا ہے۔ براڈشیٹ کو ادائیگی ٹیکس دہندگان کی رقم سے ہوئی۔ حکومت براڈ شیٹ کو جو ادائیگی کر رہی ہے وہ ماضی کی ڈیل اور این آر او کی قیمت ہے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرس کرتے ہوئے بیرسٹر شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ براڈ شیٹ کے معاملے پر ملک میں بڑی بحث ہو رہی ہے۔ احتساب کے لیے سب سے زیادہ ضروری شفافیت ہے، ہمیں اپنے اداروں پر اعتماد کرنا چاہیے۔ جتنے بھی کمیشن بنائے، ان کی رپورٹ منظر عام پر لائی گئی ہے۔ 2016ء کی دستاویزات پبلک کئے بغیر شفافیت نہیں آ سکتی۔

بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا کہ نیب اور براڈ شیٹ کے درمیان معاہدہ جون 2000ء میں ہوا۔ جولائی 2000ء میں انٹرنیشنل ایسٹ ریکوری فرم سے ایک دوسرا معاہدہ ہوا۔ دسمبر 2000ء میں نواز شریف حکومت سے معاہدہ کرکے سعودی عرب چلے گئے۔ 28 اکتوبر 2003ء میں نیب نے براڈ شیٹ کے ساتھ معاہدہ منسوخ کیا۔ 20 مئی 2008ء میں براڈ شیٹ کیساتھ سیٹلمنٹ ہوئی، 1.5 ملین ڈالرز کی ادائیگی ہوئی۔ براڈ شیٹ کیساتھ سیٹلمنٹ ادائیگی کے وقت پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔

انہوں نے بتایا کہ براڈ شیٹ کے معاملے پر لندن ہائیکورٹ فیصلے پر حکومت پاکستان نے اپیل فائل کی تھی۔ جولائی 2019ء میں اس کا فیصلہ براڈ شیٹ کے حق میں آیا۔ ہمارا عدالت کے سامنے موقف تھا کہ ریکوری نہیں ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی ہدایت پر ہم نے براڈ شیٹ سے اپنے وکلا کے ذریعے رابطہ کیا۔ براڈ شیٹ کے وکلا سے تحریری طور پر وہ فیصلے پبلک کرنے کی اجازت لی جو پہلے پبلک نہیں تھے۔