اسٹیبلشمنٹ نے پرویز الہٰی کو مجبور کیا عمران خان کا ساتھ نہ دو، پی ڈی ایم کو جنرل باجوہ نے مسلط کیا، انتخابات اپریل میں ہوں گے: عمران خان 

اسٹیبلشمنٹ نے پرویز الہٰی کو مجبور کیا عمران خان کا ساتھ نہ دو، پی ڈی ایم کو جنرل باجوہ نے مسلط کیا، انتخابات اپریل میں ہوں گے: عمران خان 
سورس: File

لاہور : سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے پرویز الہٰی کو مجبور کیا تھا کہ ن لیگ کے وزیر اعلیٰ بن جائیں لیکن انہوں نے ہمارا ساتھ دیا اور اسمبلیاں توڑ دیں۔ پی ڈی ایم کی حکومت کو جنرل باجوہ نے ہمارے اوپر مسلط کیا۔ انتخابات اپریل میں ہی ہوں گے۔ 

بی بی سی اردو کو انٹرویو میں سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ملک بھر میں آئندہ عام انتخابات کی اپریل 2023 میں ہوں گے  ۔ اس وقت سے کوئی ریلیشن شپ نہیں۔ 

تحریک انصاف نے کچھ روز کے وقفے سے پنجاب اور پھر اب خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کر دی ہیں جبکہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے قومی اسمبلی میں حکومت کے ساتھ نگران حکومت کے قیام کے لیے مشاورت کا حصہ بننے کا عندیہ دیا ہے۔

عمران خان کا کہنا تھا کہآج تک کون سا سیاسی رہنما آیا ہے جو اپنی حکومت گرا دیتا ہے جو کہ 70 فیصد پاکستان ہے۔ یہ حکومت آکشن کے ذریعے آئی ہے، الیکشن کے ذریعے نہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے آئی ہے جس نے ’20، 25 کروڑ روپے دے کر لوگوں کو خریدا۔ جنرل باجوہ نے ان کی مدد کی، انھیں ہمارے اوپر بٹھانے کے لیے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے 1100 ارب روپے کے کرپشن کیسز ختم کروائے۔ ہماری معیشت کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا۔ کبھی پاکستان کے معاشی حالات وہ نہیں جو آج ہیں۔اس کا ایک ہی حل ہے ۔صاف و شفاف انتخابات۔ جب تک پاکستان میں الیکشن نہیں ہوتے، نہ اندر سے کوئی سرمایہ کار، کاروباری شخصیت ان پر اعتماد رکھتا ہے۔ نہ باہر سے کوئی ان پر اعتماد رکھتا ہے۔۔ 

عمران خان کا کہنا ہے کہ ہم ایک دلدل میں ڈوبتے جا رہے ہیں۔ سری لنکا جیسی صورتحال سے بچانے کے لیے حل ایک ہی ہے فری اینڈ فیئر الیکشن۔ اس وجہ سے ہم نے اپنی دو حکومتیں گرائی ہیں۔ موجودہ حکومت نے قانون کی بالادستی کی دھجیاں اُڑا دی ہیں یعنی اپنے آپ کو قانون کے اوپر کر دیا ہے۔ ساری چوری معاف کروا دی ہے۔ یہ وہ کیسز تھے جو ان کے اپنے ادوار میں بنے ہوئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ شہباز، نواز، زرداری، مریم یہ سب بچ گئے ہیں۔ ان پر سارے کیسز ختم ہوگئے ہیں۔۔۔ یہ جتنی دیر اور چاہیں گے، ان کا مقصد اپنے کیسز ختم کرنا ہے۔اس وقت دو مہینے بھی بہت دور لگ رہے ہیں۔ آپ نے اگست کہا (مگر) میں تو ابھی کی بات کر رہا ہوں۔ ہمیں یہ خطرہ ہے کہ جس طرح ہماری معیشت گِر رہی ہے، ہمارے چار ارب ڈالر کے ذخائر رہ گئے ہیں۔ بندرگاہ پر چار ارب کی چیزیں پڑی ہیں جو اٹھا نہیں رہے۔ چیزیں مہنگی ہو رہی ہیں، بے روزگاری، فیکٹریاں بند ہو رہی ہیں۔ہمیں ان کے دو ماہ (اور) گزارنا مشکل لگ رہا ہے۔ میری اپنی پیشگوئی ہے کہ جو بھی ہوجائے، یہ حکومت اپریل میں الیکشن کرانے پر مجبور ہوجائے گی۔

سابق وزیر اعظم نے دعویٰ کیا کہ ’اسٹیبلشمنٹ نے پرویز الہی پر پورا زور لگایا کہ وہ ن لیگ کے وزیر اعلی بن جائیں یا وزارت اعلیٰ (عمران خان کے کہنے کے باوجود) نہ چھوڑیں۔ ہم نے فیصلہ کیا تھا ہم اسمبلیوں کو تحلیل کریں گے۔ مگر انھوں نے ہم سے وفاداری نبھائی اور ہمیں وفاداری واپس دینی تھی۔ وہ یہ ہے کہ وہ (تحریک انصاف میں) ضم ہوجائیں گے اور ہماری پارٹی کا حصہ بن جائیں گے۔

انہوں نے مزید کہتے ہیں کہ میں نے اور شوکت ترین (اس وقت کے وزیر خزانہ) نے مل کر جنرل باجوہ کو بتایا تھا کہ اگر آپ نے سیاسی عدم استحکام پیدا کیا، یہ سازش کامیاب کرنے کے لیے، تو (معیشت کو) کوئی بھی نہیں سنبھال سکے گا۔ اور وہی ہوا۔

عمران خان کا کہنا ہے کہ ان سے سنبھالی نہیں گئی۔ مارکیٹ نے ان پر جلد اعتماد کھو دیا۔ یہ اپنی چوریاں اور این آر او ٹو لے رہے تھے۔ ملک کے اندر افراتفری پیدا ہونے لگی۔ تو آج ذرا (کسی) کاروباری شخیصت سے پوچھیں۔ کیا یہ ہماری وجہ سے ہوا ہے؟ یہ انھیں آتے ساتھ ہی اندازہ ہوا کہ ان کے پاس تو روڈ میپ ہی نہیں۔۔۔ جو جنرل باجوہ نے ان کے ساتھ مل کر کیا ہے، دشمن بھی پاکستان کے ساتھ نہ کرتا۔

اس سوال پر کہ نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ساتھ عمران خان اور ان کی جماعت کے کیسے روابط ہیں اور آیا انھوں نے صدر عارف علوی کی مدد سے نئی قوجی قیادت کے ساتھ رابطے قائم کیے ہیں، عمران خان نے کہا ’دیکھیں، ہمارا اس وقت (نئی فوجی قیادت) سے تو کوئی ریلیشن شپ نہیں۔‘

مصنف کے بارے میں