اپوزیشن کے شدید احتجاج کے باوجود بلوچستان کا مالی سال 22-2021 کا بجٹ پیش

اپوزیشن کے شدید احتجاج کے باوجود بلوچستان کا مالی سال 22-2021 کا بجٹ پیش
کیپشن: بلوچستان کا 22-2021ء کا بجٹ پیش، ترقیاتی بجٹ کا تخمینہ 179 ارب 19 کروڑ روپے
سورس: فائل فوٹو

کوئٹہ: بلوچستان کی حکمران جماعت بلوچستان عوامی پارٹی (بی اے پی) نے اپوزیشن کے شدید احتجاج کے دوران آئندہ مالی سال 22-2021 کا بجٹ پیش کردیا۔

بلوچستان اسمبلی کے اسپیکر عبدالقدوس بزنجو کی زیر صدارت صوبائی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا جہاں صوبائی وزیر خزانہ میر ظہور احمد بلیدی نے بجٹ پیش کیا۔

صوبائی وزیر خزانہ ظہور احمد بلیدی نے بجٹ تقریر میں کہا کہ بلوچستان عوامی پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں کا تیسرا سالانہ بجٹ اس مقدس ایوان کے سامنے پیش کرنا میرے لیے اعزاز اور مسرت کا باعث ہے۔ بلوچستان کی آبادی کم اور وسائل بے شمار ہیں، آبادی اور وسائل کا یہ تناسب کسی بھی علاقے کی ترقی کے لیے خوش قسمتی کی علامت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ جام کمال کی قیادت میں ہم صوبے بھر میں ترقی اور خوش حالی کی مثبت سمت میں گامزن ہیں، معاشی اور سماجی اہداف کے حصول اور لوگوں کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے لیے ہمہ جہت اقدامات کیے جارہے ہیں۔ اگلے مالی سال 22-2021 کا بجٹ رواں مالی سال کے بجٹ کا تسلسل ہے اور ان دونوں بجٹس میں کورونا وائرس پر قابو پانے کے لیے مطلوبہ وسائل مہیا کیے گئے بلکہ صوبے کے مجموعی صحت کے نظام پر خطیر رقم خرچ کی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بظاہر کورونا کی وبا کا خطرہ ٹلا نہیں لیکن اس سلسلے میں ہم نے ضروری اقدامات کیے ہیں اور اگلے مالی سال 22-2021 کے لیے اس مد میں 3.637 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، جس میں وفاقی حکومت کی جانب سے 2.937 ارب روپے کی گرانٹ بھی شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ بجٹ میں مختص شدہ اس فنڈ سے صوبے میں 5 نئی جدید لیبارٹریاں بھی قائم کی جائیں گی۔ صوبائی بجٹ پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ رواں مالی سال کے مجموعی بجٹ کا ابتدائی تخمینہ 465.528 ارب روپے تھا اور نظر ثانی شدہ بجٹ برائے سال 21-2020 کا تخمینہ 387.016 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔

بجٹ 22-2021 پر بات کرتے ہوئے صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے غیر ترقیاتی بجٹ کا مجموعی حجم 346.861 ارب روپے جبکہ ترقیاتی بجٹ کا مجموعی حجم 189.196 ارب روپے اور ڈیولپمنٹ گرانٹس کی مد میں 48.025 ارب روپے صوبائی ترقیاتی پروگرام کے علاوہ رکھے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ صوبے میں جاری ترقیاتی اسکیموں کی مجموعی تعداد 1525 ہے، جس کے لیے 112.545 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ نئی ترقیاتی اسکیموں کی مجموعی تعداد 2286 ہے، جس کے لیے 76.651 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

ظہور احمد بلیدی نے کہا کہ مالی سال 22-2021 میں بلوچستان کے نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے مختلف محکموں میں 5 ہزار 854 سے زائد نئی آسامیاں تخلیق کی گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے صوبے میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے خطیر رقم رکھی ہے اور اس میں مزید اضافہ بھی کیا جائے گا۔

بلوچستان کے وزیرخزانہ نے کہا کہ کورونا وائرس کی وبائی صورت حال کے پیش نظر ہیلتھ رسپانس اسٹریٹجی پیش کی جا چکی ہے، ہماری حکومت وبائی یا ہنگامی حالات کے پیش نظر اقدامات کے لیے بلوچستان کمانڈ و آپریشن سینٹر (بی سی او سی) کا قیام عمل میں لاچکی ہے۔ ڈویژنل سطح پر کمشنرز کی زیر نگرانی ڈویژنل کمانڈ و کنٹرول سینٹرز (ڈی سی او سی) ریلیف آپریشنز کی ذمہ داریاں سر انجام دے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے حفاظتی ٹیکہ جات کا پروگرام شروع ہو چکا ہے اور ہمارا عزم ہے کہ وفاقی حکومت (این سی او سی) کے تعاون سے تمام آبادی کو اس جان لیوا مرض سے بچاؤ کی ویکسین لگائی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ صوبے میں شاہراہوں پر حادثات سے اموات کی تعداد بہت زیادہ ہے، جس کے باعث 3.921 ارب روپے کی خطیر رقم سے اہم شاہراہوں پر ایمرجنسی رسپانس سینٹرز کا قیام عمل میں لارہے ہیں جبکہ اس مد میں اب تک 78 کروڑ روپے سے زائد رقم جاری کی جا چکی ہے۔ حکومت صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 5.914 ارب روپے کی لاگت سے بلوچستان ہیلتھ کارڈ پروگرام کا اجرا کرنے جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ نئے مالی سال میں شعبہ صحت کے لیے تقریباً 750 نئی آسامیاں رکھی گئی ہیں۔ مجموعی طور پر مالی سال 22-2021 میں صحت کے شعبے کو مزید بہتر بنانے کے لیے حکومت نے غیر ترقیاتی فنڈز میں 44.694 ارب روپے رکھے ہیں جبکہ ترقیاتی مد میں 11.884 ارب روپے مختص کیے ہیں۔

صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ مجموعی طور پر مالی سال 22-2021 میں شعبہ پرائمری وسیکنڈری تعلیم کی مد میں 8.463 ارب روپے اور غیر ترقیاتی مد میں 53.256 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ کالجوں اور ہائر ایجوکیش کے شعبے میں غیر ترقیاتی مد میں 11.736 ارب روپے مختص کیے ہیں جبکہ ترقیاتی مد میں9.469 ارب روپے مختص کیے ہیں۔

بجٹ اجلاس سے قبل بلوچستان اسمبلی کا احاطہ میدان جنگ بن گیا تھا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے اسمبلی پہنچنے پر ہنگامہ آرائی بڑھ گئی۔ اپوزیشن ارکان کی جانب سے وزیراعلیٰ کا گھیراؤ کرنے کی کوشش کی گئی اور ان پر جوتوں اور بوتلوں سے حملہ کر دیا گیا تاہم پولیس حصار میں ان کو اسمبلی ہال میں پہنچایا گیا۔ جام کمال کے پہنچنے پر ہونے والی ہنگامہ آرائی میں کئی دروازوں  کے شیشے ٹوٹ گئے اور پولیس کی مزید نفری اسمبلی کے سامنے پہنچ چکی ہے۔ 

خیال رہے کہ اپوزیشن اراکین نے بجٹ پیش کرنے کیخلاف اسمبلی کے باہر احتجاج کیا اور گیٹ تالے لگا کر بند کر دیے۔ ایوان کے باہراپوزیشن ارکان اور پولیس میں تصادم بھی ہوا۔ پولیس کی بکتر بند گاڑی نے ٹکر مار کر اسمبلی کا گیٹ توڑ دیا اور پولیس نے اپوزیشن ارکان پر لاٹھی چارج کیا جبکہ آنسو گیس کے شیل بھی برسائے گئے۔