چائے کی پیالی، کسٹم ٹربیونلز، بڑی کوٹھیاں اور بنگلے

چائے کی پیالی، کسٹم ٹربیونلز، بڑی کوٹھیاں اور بنگلے

محترمہ آپا نثار فاطمہ کے لخت جگر احسن اقبال ’’فلاسفر‘‘ جو اب وفاقی وزیر ہیں۔ دراصل وطن عزیز کے ’’زعما‘‘ کی زیادہ تعداد وطن عزیز سے پیش آنے والے حادثوں یا بڑوں کی موت کا نتیجہ ہے نے تجویز دی ہے کہ چائے کی ایک دو پیالی کم کر دی جائے تو ملک کا زرِ مبادلہ بچایا جا سکتا ہے۔ ان کے شاید علم سے محروم ہے کہ عام آدمی کے لیے تو آج کل چائے کی پیالی کا میسر آنا بھی محال ہے اور کئی لوگ تو ایک کپ چائے اور ساتھ ایک روٹی کے شام تک گزارا کرتے ہیں۔ فلم سٹار سلطان راہی اپنے کیریئر کے آغاز میں جب لاہور آئے تو ان پہ غربت کا یہ عالم تھا کہ شیشے کے ایک گلاس چائے کے ساتھ تین رس دن میں تین بار کھا کر گزارا کرتے تھے۔ احسن اقبال کی تجویز احسن ہے ذرا غور فرما لیتے کہ پنجاب بلکہ پورے پاکستان میں بیوروکریسی جس میں چیف سیکرٹریز، ہوم سیکرٹریز، ڈپٹی کمشنر، جی او آرز، ریلوے افسران، پولیس کے اعلیٰ افسران کی رہائش گاہیں، اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی رہائش گاہیں شہروں کی قیمتی ترین جگہوں پر ایکڑوں نہیں مربعوں میں ہیں۔ کیا چائے کی ایک دو پیالی بند کرنے کے بجائے ان دو دو لانوں اور کنالوں، ایکڑوں پر محیط کوٹھیاں اور بنگلے سائز کے حوالے سے کم نہ کر دیئے جائیں؟ ان کے ملازمین کی تعداد فری بجلی، پٹرول کم نہ کر دیا جائے؟ ان کے دفاتر کے عملے دستاویزی اور غیر دستاویزی کم نہ کر دیئے جائیں؟ ایف بی آر کے 3.1 ٹریلین روپے سے زائد کے 92 ہزار سے زائد مقدمات اعلیٰ عدلیہ و دیگر عدالتوں، کسٹم ٹربیونلز، آئی آر ٹربیونلز اور ایسے دیگر خصوصی ٹربیونلز میں زیر التوا ہیں۔ ان کے فیصلے کرانے کے لیے مدت کا تعین نہ کر دیا جائے؟ آج حالت یہ ہے کہ کسٹم ٹربیونلز میں تعینات بعض ممبران کی عدالتیں نہیں دکانیں ہیں آپ چپڑاسی سے لے کر سیکرٹریز اور منشی سے لے کر وکیل تک امپورٹرز ایکسپورٹرز سے لے کر سمگلر تک مقدمہ کی تفصیل نہ بتائیں، صرف ممبر کا نام یا بنچ پوچھیں گے تو وہ آپ کو بتا دیں گے کہ فیصلہ محکمہ کے خلاف آئے گا یا حق میں کیونکہ محکمہ تو مروجہ معاشرتی لعنت چمک دکھانے سے قاصر ہے جبکہ پرائیویٹ پارٹیاں کھلی ہیں آپ کو ہر کوئی بتا دے گا کہ فلاں دیانت دار افسر ہے فیصلہ میرٹ پر ہو گا۔ یہ صورت حال انتہائی خوف ناک ہے کہ متعلقہ محکمے محنت اور جانفشانی سے مقدمہ بناتے ہیں یقینا ان کو بھی ترغیب ہوتی ہو گی مگر وہ شاید کسی دیانت دار افسر کی موجودگی میں مقدمہ بنا دیتے ہیں ان مقدمات میں 90 فیصد مقدمے 100فیصد درست ہوتے ہیں مگر بدنصیبی سے 100 میں سے 90 فیصد مقدمے محکمہ بعض ٹربیونل یا خصوصی عدالت سے یا تو نا مناسب نمائندگی یا پھر بعض بنچ ٹربیونل کے دکان میں بدل جانے کی وجہ سے فیصلے حقائق اور میرٹ کے برعکس ہوتے ہیں۔ جس کا قومی خزانے کو کمر توڑ نقصان پہنچتا ہے۔ احسن اقبال اس طرف توجہ دیں وزیر قانون اُن کا اپنا ہے۔ سفارشی رکھے گئے ممبر فارغ کریں اور آئندہ میرٹ پر رکھیں یا پھر حاضر ڈیوٹی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کو ممبر جوڈیشل کی ذمہ داری سونپی جائے۔ میرے مشاہدے میں ہے کہ محکمہ کا 
آفیسر جو ایڈجوڈیکیٹ کرتا ہے اس کا فیصلہ پڑھنے کے لائق ہوتا ہے جو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کم از کم چیف جسٹس آف پاکستان سے اتنی گزارش تو کر سکتے ہیں کہ پارلیمنٹ کی کسی پارٹی اور سیاسی لوگوں کی ضمانتوں کے مقدمات کے بجائے ٹربیونلز کے فیصلوں پر کڑی نظر رکھی جائے۔ اول تو پارلیمنٹ میں بل پاس کر کے ٹربیونلز ویسے ہی ختم ہو جانے چاہئیں مقدمہ محکمہ کے چیف آفیسر کے فیصلے کے خلاف اپیل سیدھی ہائی کورٹ میں ہونی چاہئے۔ جبکہ ٹربیونلز کے فیصلے کے خلاف ریفرنس دائر ہوتا ہے اس میں بھی ہائی کورٹ اکثر اس کو تبدیل، مسترد یا قبول کرنے کے بجائے واپس ٹربیونل بھیج دیتی ہے جو قانون کی روح اور موجودہ ملکی معاشی حالات سے میل نہیں کھاتا اس طرح قومی خزانہ دہائیوں یا پھر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے جائز پیسے سے محروم رہتا ہے۔ میں نے بہت کم دیکھا ہے کہ محکمہ کا پیسے کا مقدمہ عدالتوں کے لا متناہی سلسلے میں چلا جائے تو اس کی وصولی ہو سکے۔ البتہ اگر معاملہ ہائی کورٹ میں ہو تو 90 فیصد وصولیاں ہو جایا کرتی ہیں۔ چودھری احسن اقبال چائے کی پیالی نہیں حکمرانوں کے خرچے کم کریں۔ ان کی کوٹھیاں اور بنگلے فروخت کر کے ان کو 
ایک کنال کے گھر یا 10 مرلہ کے گھر میں منتقل کریں۔ آپ امپورٹڈ ہیئر کلر کی امپورٹ ممنوعہ کر دیں آدھا پاکستان بزرگ ہو جائے گا اور سیاسی سماجی تقریروں میں واہیاتی اور بدتمیزی پر کی گئی تقریریں بھی سننے کو نہیں ملیں گی۔ میرے پاس ایسے مقدمات ہیں جن میں بعض ٹربیونلز نے پچھلی تاریخوں میں فیصلے دیئے اور اس کی وجہ معلوم کرنے کی ضرورت نہیں۔ محکمے کے نمائندے سامنے بیٹھے ہیں پھر بھی فیصلہ لکھتے وقت یکطرفہ کر دیا جاتا ہے۔ چونکہ میں بھی وکالت ہی کرتا ہوں، پچھلے دنوں میں نے بڑا ڈراؤنا خواب دیکھا کہ میں ایک مقدمہ میں سرکار کی طرف سے بطور وکیل پیش ہوا ہوں دو درندہ صفت وحشی راشی ممبران سے پالا پڑ گیا ہے، ایک لومڑی دوسرا بھیڑیے کی صفت کا تھا لب و لہجہ اے ایس آئی تفتیشی جیسا، دونوں ممبر مقدمے پر ادھار کھائے بیٹھے تھے،اب میں بڑا پریشان تھا کہ کوئی طریقہ ہو ان سے قومی خزانہ بچ جائے اور ان کو میری بات جو کہ یہ خوب سمجھتے ہیں دل پہ اثر کر جائے، اتنے میں ایک نیک دل اعلیٰ افسر خواب میں نمودار ہوئے اچانک میری آنکھ کھل گئی میں نے شکر کیا کہ یہ خواب تھا ورنہ سرکاری خزانہ کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوتا۔ خواب کی بات پھر کریں گے۔ احسن اقبال اگر ایسی باتوں کا نوٹس لیں تو آپ کو چائے کی پیالی کم کرنا نہیں پڑے گی۔ وطن عزیز میں نیک نیتی کے ساتھ کوئی ادارہ قائم ہوا یا ٹربیونل میں کام کرنے والوں کو تنخواہ یاد نہیں رہتی بس دیگر روزگار کی طرف متوجہ ہو گئے۔ ایف آئی اے نیک نیتی پر قائم ہوا مگر اس کے ماتحت آنے والے محکمے اس کی چراگاہ بن گئے۔ کسٹم اور دیگر ٹربیونلز کی مانیٹرنگ بہت ضروری ہے جس طرح نوازشریف کیس میں سپریم کورٹ کے ایک جج صاحب کو نگرانی کے لیے مقرر کیا تھا اسی طرح ان ٹربیونلز اور ماتحت عدالتوں کو بھی مانیٹر کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے ایک جج صاحب یا ہائی کورٹ کے جج صاحب کی نگرانی میں دیا جانا چاہئے، جتنے مقدمات محکمہ جات کے خلاف ہوئے ہیں ان کا از سرِ نو جائزہ لیا جائے۔ چائے کی پیالی کم نہیں کرنا پڑے گی۔ آئندہ کالم میں وطن عزیز کے گرے لسٹ سے نکلنے کے حوالے سے لکھا جائے گا، مہنگائی کا الزام تو پونے چار سال حکومت کرنے والے موجودہ حکومتوں پر ڈالتے ہیں دیکھتے ہیں گرے لسٹ سے نکلنے کا کریڈٹ وزیر خارجہ بلاول بھٹو اور وزیر اعظم شہبازشریف کو دیتے ہیں یا اس پر خود دعویٰ کرتے ہیں۔

مصنف کے بارے میں