ریاست کی رٹ قائم ہو سکے گی؟

ریاست کی رٹ قائم ہو سکے گی؟

ازمان پارک میں جو کچھ ہوا قطعاً درست نہیں ہوا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ بھی درست نہیں ہے اور جو اب ہو رہا ہے وہ بھی درست نہیں ہے۔ قرائن یہ بتا رہے ہیں کہ جو کچھ ہو گا وہ بھی شاید درست نہیں ہو گا۔ سارے معاملے کے حوالے سے ایک تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ معاملات لال مسجد جیسے آپریشن کی طرف جاتے نظر آتے ہیں۔ لال مسجد میں مورچہ بندوں نے ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا تھا۔ جنرل مشرف نے پوری قوت کے ساتھ رٹ قائم کر کے دکھا دی تھی۔ گو یہ آپریشن ان کی حکمرانی کی جڑوں میں بیٹھ گیا تھا لیکن انہوں نے ریاست کی کمزوری اور افراد کی طاقت کے تاثر کی عزم بالجزم کے ساتھ نفی کر دی۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ میں ان کے اس اقدام کی وکالت کر رہا ہوں۔ اسے درست قرار دے رہا ہوں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے لیکن میں تو وہ کہہ رہا ہوں جو برسرزمین رونما ہوا۔ ریاست ہر صورت میں طاقتور ہوتی ہے اس کے پاس لامحدود طاقت ہوتی ہے اگر وہ ٹھان لے کہ اس کے آگے کوئی کھڑا نہیں ہو گا تو پھر کوئی کھڑا نہیں ہو سکتا ہے سوال صرف یہ ہے کہ ریاست فیصلہ کیا کرتی ہے۔
عمران خان اور ہمنوا آئین کی بالادستی اور دو صوبوں میں انتخابات کرانے کی رٹ لگاتے رہے ہیں انہیں اس بات کی ہرگز پروا نہیں ہے کہ ریاست کی حالت کیا ہے، قومی معیشت جان بلب ہے، سیاست پراگندہ ہے، ملکی لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال مخدوش ہے طالبان اور ان کے ہمنوا ریاست پاکستان کو للکار رہے، پھنکار رہے ہیں۔ ہماری فوج اور دیگر ریاستی ادارے ان سے نمٹنے کے لئے جان کی قربانی دے رہے ہیں۔ خزانہ خالی ہے، ڈیفالٹ کا خطرہ سر پر منڈلا رہا ہے، لیکن عمران خان ایک ہی رٹ لگا رہے ہیں، الیکشن الیکشن الیکشن۔ حالانکہ یہ بات ابھی طے ہونا باقی ہے کہ الیکشن کرانے کی آئینی ضرورت جس ایکشن کے باعث ہوئی ہے اس بارے میں طے کرنا ضروری ہے کہ کیا وہ ایکشن آئینی ہے؟ 
کونسل آف کامن انٹرسٹ  نے عمران خان کے دور حکومت میں طے کیا تھا کہ آئندہ انتخابات نئی مردم شماری کے بعد ہوں گے۔ عمران خان اس فیصلے پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہے اب یہ کام سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ہو رہا ہے۔ نئی مردم شماری ہو رہی ہے۔ ڈی لمیٹیشن ہو گی۔ نئی فہرستیں بنیں گی اور پھر آئین کے مطابق انتخابات ہوں گے لیکن عمران خان بضد ہیں کہ دو صوبوں میں انتخابات ہونے چاہئیں حالانکہ دو صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا فیصلہ متنازع ہے کسی ایک شخص کی خواہش اور حکم پر اسمبلیوں کا خاتمہ ہرگز ہرگز درست نہیں ہے اس پر بات نہیں کر رہے ہیں۔
فرض کریں دونوں صوبوں میں انتخابات ہو جاتے ہیں اور نئی حکومتیں قائم بھی ہوجاتی ہیں پھر اگست ستمبر 2023 میں مرکز اور دیگر صوبوں میں آئین کے مطابق منعقد ہونا ہیں آئینی حکم ہے کہ اس وقت کیئرٹیکر حکومتیں ہوں گی جو انتخابات کرائیں گی۔ پنجاب اور کے پی کے میں کیا ہو گا؟ کیونکہ وہاں کی حکومتیں تو پانچ سال کے لئے منتخب ہوئی ہوں گی؟ کیا ان دو صوبوں میں ان حکومتوں کے زیرانتظام انتخابات منعقد کرانا آئین کی خلاف ورزی نہیں ہو گی؟یہ باتیں سوچنے کی ہیں۔ غوروفکر کرنے کی ہیں، یہ معاملات اجتماعی دانش کے ذریعے آگے بڑھنے کا تقاضا کر رہے ہیں لیکن عمران خان ہر شے کو بالائے طاق رکھ کر اپنی خواہشات کے مطابق ہر کسی کو روندتے ہوئے آگے بڑھنا 
چاہتے ہیں۔ ان کی اس خواہش میں چاہے ملک افتراق اور انتشار کا شکار ہو جائے۔ عمران خان مستقلاً ایسا ہی کچھ کرتے چلے جا رہے ہیں۔ عمران خان اپنے 44 ماہی دور حکمرانی میں بھی ریاست کے نٹ بولٹ ڈھیلے کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے دور حکمرانی میں ایک بھی قابل فخر کام نہیں کیا۔ وہ اپوزیشن لیڈر کے طور پر ہی حرکات و سکنات کرتے رہے، لڑائی جھگڑا پروموٹ کرتے رہے۔ ان کے دور حکومت میں سی پیک رک گیا۔ دوست ممالک بشمول سعودی عرب، قطر، یو اے ای، ملائیشیا، سب کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے۔ 10 اپریل 2022 کو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد انہوں نے امریکہ کے خلاف بھی اعلانِ جنگ کر دیا۔ حکومت سے نکلنے کے بعد وہ مسلسل ریاستی اداروں اور حکومت کے خلاف برسرجنگ ہیں۔ انہوں نے لانگ مارچ بھی کر لیا، شارٹ مارچ بھی دیکھ لیا، جیل بھرو تحریک کا حشر نشر بھی ہمارے سامنے ہے۔ دو حکومتوں کے خاتمے یعنی پنجاب اور کے پی کے اسمبلیوں کی تحلیل کے ذریعے انہوں نے حکومت کو جھکانے میں ناکامی کے بعد اب وہ لا اینڈ آرڈر کی صورتحال بگاڑنے کی بھرپور کاوشیں کر رہے ہیں۔
زمان پارک کی صورتحال اسی سلسلے کی ایک کڑی نظر آتی ہے۔ عمران خان بڑی مہارت اور سبک رفتاری کے ساتھ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے دن رات مصروف عمل ہیں۔ ہر آنے والا دن ان کی کامیابی کی نوید لا رہا ہے۔ حکمران اتحاد ناکام نظر آ رہا ہے۔ معاشی میدان میں ان کی کارکردگی انتہائی تشویشناک ہے۔ عام آدمی تو کیا درمیانہ طبقہ بھی مکمل طور پر معاشی تباہی کا شکار ہو چکا ہے۔ حکومت نہ صرف قہر نازل کر رہی ہے بلکہ آنے والے دنوں میں بھی ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ حکومت عوام کو جھوٹی سچی امید دلانے کی بھی پوزیشن میں نہیں ہے۔ معاشی حالات سردست کسی امید افزا سمت میں جاتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کے سٹاف لیول معاہدے ہو بھی جائیں تو ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری کا بھی انتظار کرنا ہو گا۔ وہ بھی ہو جائے اور ہمیں 1 ارب 10 کروڑ ڈالر مل بھی جائیں تو ہمارے مسائل جون کے بعد ایک بار پھر اسی مقام پر کھڑے ہوں گے جہاں آج ہیں۔ آئی ایم ایف ہمارے مسائل کا حل نہیں ہے۔ ہماری دھائیوں پر پھیلی بداعمالیاں ہنوز جاری ہیں، ہماری معیشت اچانک اس مقام تک نہیں پہنچی بلکہ اسے یہاں تک پہنچانے میں ہم نے بڑی محنت اور مشقت کی ہے اور ابھی بھی یہ مشق جاری ہے۔ ہم بحیثیت قوم کسی قسم کا سبق سیکھنے کے لئے آمادہ نہیں ہیں۔ کمشنر سے لے کر چپڑاسی تک، سیکرٹری سے لے کر جونیئر کلرک تک ہر سرکاری اہلکار نظام کو ناکام بنانے کے لئے تن دھن کی بازی لگا رہا ہے۔ ایسا ہی کچھ ریاست کے دیگر اداروں میں ہو رہا ہے۔ فوج ہو یا عدلیہ، میڈیا ہو یا عام شہری اور ان کے ادارے سب مل جل کر مصروف عمل ہیں۔ عام آدمی کا ریاست سے اعتبار اٹھ چکا ہے۔ کسی کو اپنے حال پر یقین نہیں ہے، ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ وہ سب کے سامنے برہنہ حالت میں نظر آ رہا ہے۔ دو وقت کی روٹی ایشو نہیں رہا بلکہ ایک وقت کی روٹی بھی مسئلہ بن چکی ہے۔ ہمارے معاملات جس طرح بگاڑ کی طرف جا رہے ہیں ہو سکتا ہے کہ ایسا وقت ہی نہ آ جائے کہ جب ایک وقت کی روٹی کا حصول ہی ناممکن ہو جائے۔ اگر حال یونہی رہا تو مستقبل قریب میں ایسا ہونا ناممکن نہیں ہو گا۔ ہماری بے حسی اسی نتیجے کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کیا جائے؟ یہ ایک ملین ڈالر کا سوال ہے کہ معاملات کس طرح درست ہونا شروع ہوں گے؟ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ معاملات جب بڑھتے بڑھتے تباہی و بربادی کی آخری حدوں کوچھو لیتے ہیں تو پھر قدرتی طور پر بہتری آنا شروع ہو جاتی ہے۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے لیکن وہ بہت خطرناک ہوتا ہے۔ قدرت جب معاملات کو سدھارنے پر آتی ہے تو اس میں بڑی شدت کے ساتھ تباہی و بربادی بھی ہوتی ہے۔ دعا ہے کہ اس طرح نہ ہو۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اجتماعی دانش کے ذریعے معاملات کو درست سمت کی طرف لے جانے کی منصوبہ سازی کی جائے۔ تمام سٹیک ہولڈرز اپنی سیاسی ترجیحات کو ایک طرف رکھ دیں تو خلوص نیت کے ساتھ مل بیٹھیں اور مسائل کے حل کے لئے لائحہ عمل طے کریں۔   عالمی صورتحال اور علاقائی تبدیلیاں بھی اس بات کی متقاضی ہیں کہ ہم اپنے معاملات کو فوراً درست کریں اور جو مشکل وقت آنے والا ہے اسے اپنے لئے خیروبرکت کا ذریعہ بنا لیں۔ روس یوکرائن جنگ نے عالمی معاملات میں زیروزبر برپا کر رکھا ہے۔سعودی عرب اور ایران کے سفارتی تعلقات کی بحالی، امریکہ اور اقوام مغرب کے لئے پریشانی کا باعث ہے۔ بحرین بھی ایسا ہی کچھ کرنے جا رہا ہے۔ خطہ جوہری قسم کی تبدیلیوں کی زد میں ہے ہم کہاں کھڑے ہیں، ابھی کچھ پتا نہیں ہے۔ ہم کیونکہ اندرونی طور پر کمزور ہیں، منتشر ہیں، معاشی و سماجی عدم استحکام کا شکار ہیں اس لئے رونما ہونے والی تبدیلیوں کو کماحقہ سمجھنے اور اپنے قومی مفادات کا تعین کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ حد یہ ہے کہ ہمیں زلمے خلیل زاد جیسے لوگ بھی نصیحتیں کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ہمیں فوری طور پر اپنے معاملات کو درست کرنے کی سعی کرنی چاہئے وگرنہ حالات بے قابو ہوتے جا رہے ہیں۔