تہذیب اور سزائیں

تہذیب اور سزائیں

 والے واقعات اور لوگوں کے رویوں اور معاشرے میں بدامنی، انتشار، بدنظمی، دھوکہ دہی اور معاشرے کی اصلاح کے لیے قانون نافذ کیے جاتے ہیں تاکہ معاشرے کو تہذیب کے دائرے میں رکھا جا سکے۔
مگر میں آج بھی ایسے علاقوں کو جانتی ہوں جہاں پہ آج بھی قانون نام کی کوئی چیز نہیں۔جہاں آج بھی انسانوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے جہاں پہ جزا اور سزا کا اختیا ر طاقتور کے ہاتھ میں ہے اور کمزوروں کے ساتھ آج بھی سلوک کیڑے مکوڑوں کے برابر کیا جاتا ہے۔انسان جب کسی کو نیچا دکھاتا ہے تو درحقیقت اپنی اندر چھپی ہوئی شخصیت کی عکاسی کرتا ہے۔اگر میں تہذیب کی بات کروں تو آج بھی ہم میں سے بہت سے پڑھے لکھے لوگ،لوگوں کے حسب نسب ذات پات اونچ نیچ اور اُن کے روزگار سے حقیر گردانتے ہیں۔آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ پرانے جوتے مرمت کرنے والا اُس کے پاس پتھر کی ایک سِل ہوتی ہے اور وہ اُس پر اپنے اوزار رکھ کے جوتے کو سیتا ہے۔آپ یہ سوچ رہے ہونگے کہ میں نے موچی کی مثال کیوں دی۔ایک بار میں بازار گئی میں نے دیکھا کہ ایک سمجھدار شخص نے اپنے پاؤں میں جوتا پہن رکھا تھا اس نے جوتے کی مرمت کروانے کی غرض سے جوتے سمیت اپنا پاؤں موچی کے سِل پہ رکھا اور بڑے عجیب انداز سے جوتا مرمت کرنے کا کہا تو موچی نے فورا اُس شخص سے کہا کہ بھائی صا حب یہ کیسی عجیب حرکت ہے کہ آپ نے پاؤں سمیت جوتا جس حقارت سے رکھا ہے آپ کو علم ہونا چاہیے کہ میں اس سِل سے رزق کماتا ہوں آپ کی نگاہ میں اس چیز کی قدروقیمت نہ ہوگی مگر میں یہاں سے روٹی کماتا ہوں اس لیے ہر 
انسان کوسمجھنا چاہیے اور خود سے ہی کسی کو حقیر گردانتے ہوئے رائے قائم نہیں کرنی چائیے۔ معاشرے میں ایک دوسرے کے ساتھ کیے گئے بہتر سلوک سے ہی قوموں کے تہذیب یافتہ ہونے کا پتا چلتا ہے۔
اسی طرح انسانی تاریخ میں جرائم کی روک تھام کے لیے دو طریقوں کو اختیار کیا جاتا تھا۔ایک طریقہ یہ تھا کہ روایات،اقدار اور قانون کے ذریعے ان کی روک تھام کی جائے مذہبی رہنما مذہبی تعلیمات کے ذریعے بھی کوشش کرتے تھے کہ لوگوں کے ذہنوں کو بدلا جا سکے اور اُنہیں نیک اعمال کی طرف لایا جا سکے۔دوسرا خیال یہ تھا کہ سزاؤں کے ذریعے جرائم کی روک تھام کی جائے۔ خیال یہ تھا کہ سزائیں لوگوں میں خوف اور ڈر کو پیدا کریں اور وہ جرائم سے دور رہیں۔
اس موضوع پہ ایک رائیٹر پریریٹ جون pratt john) (نے (punishment and civilization)کے نام سے ایک کتاب لکھی اُن کا کہنا تھا کہ تاریخ میں سزاؤں کا تعلق تہذیب کی پسماندگی اور ترقی سے ہے۔اگر کوئی سوسائٹی تہذیبی طور پر غیر ترقی یافتہ ہے۔تو اس میں سخت سزاؤں کا رواج ہوتا ہے۔لیکن تہذیب کی ترقی کے ساتھ ساتھ سزاؤں کے بارے میں بھی رویے بدلتے ہیں۔
اسی طرح انگلستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں کہ جب کسی مجرم کو پھانسی دی جاتی تھی تو اس کا بڑا اہتمام کرتے تھے۔مجرم کو جیل سے پھانسی شہر کے ایک اہم مقام پر دی جاتی تھی جسے دیکھنے کے لیے سڑک کے دونوں اطراف پر لوگوں کا مجمع اکٹھا ہو جایا کرتا تھا۔ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کوئی تفریح یا تماشہ کا مقام ہو جو گھر اُس جگہ کے ارد گرد واقع ہوتے تھے وہاں لوگ کھڑکیوں سے بھی دیکھا کرتے تھے۔ بعض لوگ تو بچے اپنے کندھوں پہ اُٹھا کر لے آیا کرتے تھے کہ وہ بھی مجرم کو بھانسی ہوتے دیکھ سکیں۔وہاں لوگوں کا مجمع،شوروغل ہوتا اور لوگ گانے بھی گاتے تھے۔مجرم کو سزا دینے سے پہلے پندرہ منٹ چرچ کی گھنٹیاں پندرہ منٹ پھانسی کے بعد تک بجائی جاتی تھیں۔اس پبلک پھانسی کا مطلب یہ تھا کہ لوگ اس سے عبرت حاصل کریں مگر یہ عبرت کی بجائے عوام کے لئے تفریح کا سبب بن گیا۔
اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ سیاستدانوں، دانشوروں اور سیاستدانوں نے مطالبہ کیا کہ پبلک میں پھانسی دینے کے نتیجے میں لوگوں میں بے حسی پیدا ہوئی۔چارلس ڈیگن نے اپنے ناولوں میں اس بات پراظہار افسوس بھی کیاکہ پبلک میں پھانسی کو ختم کیا جائے۔اس کے بعد جو دوسرے اقدامات پارلیمنٹ کی جانب سے لئے گئے وہ یہ تھے کہ بہت سے جرائم سے سزائے موت کا خاتمہ کیا جائے اور یہ سزا قتل کے مجرموں کے لئے ہی باقی رہے۔اس کے بعد دوسرے ملکوں میں بھی سزائے موت کا عمل جاری رہا مگر تبدیلی یہ آئی کہ مجرم کو اس طرح قتل کیا جائے کہ اُسے تکلیف نہ ہو لہذا امریکہ میں الیکٹرک چئیر سے روشناس کرایاگیا اور زہریلے انجیکشن کے ذریعے بھی یہ سزا دی گئی۔
انگلستان اور یورپ میں بھی تحریک چلی کہ سزائے موت کا خاتمہ ہونا چاہیے کیونکہ بہت سے لوگوں کی یہ رائے تھی کہ اتنی سخت سزاؤں کے با وجود سوسائٹی سے جرائم کا خاتمہ نہ ہوا۔اس تناظر میں اگر ہم پاکستان میں ہونے والے جرائم، پولیس کے روئیے،جیلوں میں قیدیوں کی زبوں حالی کا جائزہ لیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ تہذیبی طور ہمارا ملک بہت پسماندہ ہے۔ملک میں جرائم کا جو پھیلاؤ ہے اس کی ذمہ دار ہماری سوسائٹی اور حکمران طبقہ ہیں۔سوسائٹی میں ہونے والے جرائم،سزائیں اور جیل ہمارے ذہنی رویوں اور کلچر کی پسماندگی کی عکاسی کرتی ہے۔