سپریم کورٹ    نے کراچی سمیت ملک بھر کے شاپنگ مالز کھولنے کا حکم دے دیا

سپریم کورٹ    نے کراچی سمیت ملک بھر کے شاپنگ مالز کھولنے کا حکم دے دیا


اسلام آباد : سپریم کورٹ آف پاکستان   نے کراچی سمیت ملک بھر کے شاپنگ مالز کھولنے کا حکم دے دیا .ہفتے اور اتوار کو بھی مارکیٹس کھلی رکھنے کی ہدایت، سیل دکانیں بھی کھولنے کا حکم سن کر ملک بھرکے تاجروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔

عدالت نے اپنے حکم میں قراردیا ہے کہ ملک بھر میں مارکیٹیں اور کاروباری سرگرمیوں کو ہفتہ، اتوار کو بند کرنے کا فیصلہ کالعدم قراردیا جاتا ہے کیونکہ مارکیٹیں اور کاروباری سرگرمیوں کو ہفتہ اتوار کو بند کرنا آ ئین کی خلاف ورزی ہے عدالت نے قراردیا کہ پنجاب اور اسلام آباد شاپنگ مالز کھولنے کا ارادہ رکھتے ہیں اس لئے سندھ میں شاپنگ مالز بند رکھنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آ تی ،سندھ شاپنگ مالز کھولنے کیلئے وفاقی حکومت سے رجوع کرے اور اجازت کے بعد صوبے شاپنگ مالز کھولنے میں رکاوٹ پیدا نہ کریں۔

عدالت نے کیس کی سماعت کل  تک ملتوی کرتے ہوئے قراردیا ہے کہ تمام وسائل صرف کورونا پر خرچ نہ کئے جائیں، وفاقی اور صوبائی حکومتیں وسائل خرچ کرنے سے متعلق اپنا موقف دیں، عدالت نے قراردیا کہ پاکستان میں کرونا اتنا سنگین نہیں جتنی رقم خرچ کی جا رہی ہے، کورونا سے زائد سالانہ اموات دیگر امراض سے ہوتی ہیں، این ڈی ایم اے اربوں روپے کرونا سے متعلق خریداری پر خرچ کر رہا ہے، عدالت نے این ڈی ایم اے حکام کوحکم دیا کہ وہ  کل  نئی ہدایات لے کر عدالت کو آگاہ کریں ۔

عدالت عظمی میں کورونا ازخود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی ۔کورونا کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمدنے کمشنر کراچی کو دکانیں اور مارکیٹیں سیل کرنے سے روکتے ہوئے کہاکہ تاجروں سے بدتمیزی کرنی ہے نہ رشوت لینی ہے،حکام دکانیں سیل کرنے کے بجائے ایس او پیز پر عمل کرائیں ، چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ جو دکانیں سیل کی گئی ہیں انہیں بھی کھول دیں، کہیں چھوٹے تاجر کرونا کے بجائے بھوک سے ہی نہ مر جائیں۔

وزارت قومی صحت کی رپورٹ اہمیت کی حامل ہے،چیف جسٹس نے سوال کیا کہ جن چھوٹی مارکیٹوں کو کھولا گیا وہ کونسی ہیں؟ کمشنر کراچی کے جواب پر چیف جسٹس نے کہاکہ کیا زینب مارکیٹ اور راجہ بازار چھوٹی مارکیٹیں ہیں؟کیا طارق روڈ اور صدر کا شمار بھی چھوٹی مارکیٹوں میں ہوتاہے؟ایڈووکیٹ جنرل سندھ کا کہنا تھاکہ شاپنگ مالز کے علاوہ تمام مارکیٹیں کھلی ہیں،کمشنر کراچی نے کہاکہ مالز میں ستر فیصد لوگ تفریح کیلئے جاتے ہیں،چیف جسٹس نے چیف کمشنر کراچی کو ہدایت کی کہ عید کے موقع پر ہفتے اور اتوار کو بھی مارکیٹیں بند نہ کی جائیں، اس دوران عدالت نے چیف سیکریٹری سندھ کو فوری عدالت طلب کرتے ہوئے سندھ حکومت سے بڑے شاپنگ مالز کھولنے کے حوالے سے ہدایات فوری طور پر پیش کرنے کی ہدایت کی ۔

اس دوران ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت آج سے شاپنگ  مالز کھولنے پر غور کررہی ہے ،جسٹس مشیر عالم نے کہاکہ باقی مارکیٹیں کھلی ہوں گی توشاپنگ مالز بند کرنے کا کیاجواز ہے؟چیف جسٹس نے کہاکہ عید پر رش بڑھ جاتا ہے اسلئے ہفتے اور اتوار کو بھی مارکیٹیں بند نہ کرائی جائیں۔

چیف جسٹس نے حکام سے کہاکہ آپ نئے کپڑے نہیں پہننا چاہتے لیکن دوسرے لینا چاہتے ہیں، بہت سے گھرانے صرف عید پر ہی نئے کپڑے پہنتے ہیں، چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کورونا وائرس ہفتے اور اتوار کو کہیں چلا نہیں جاتا، کیا کورونا نے بتایا ہے کہ وہ ہفتے اور اتوار کو نہیں آتا؟ کیا ہفتے اور اتوار کو سورج مغرب سے نکلتا ہے؟ چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ ہفتے اتوار کو مارکیٹیں بند کرنے کا کیا جواز ہے؟چیف جسٹس نے ملک بھر میں شاپنگ مالز کھولنے کی ہدایت کر تے ہوے کہاکہ ہفتے اور اتوار کو بھی مالز اور مارکیٹیں بند نہیں ہونگی۔

چیف جسٹس نے کے پی کے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ پشاور میں کتنے شاپنگ مالز ہیں,ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ پشاور میں کوئی شاپنگ مال نہیں اور شہر میں تمام کاروباری مراکز کھلے ہیں۔ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں کوئی مال نہیں باقی مارکیٹس کھلی ہیں،کیس کی سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے شاپنگ مالز کھولنے کی یقین دہانی کرا دی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ شاپنگ مالز کو بند رکھنے کی کیا منطق ہے؟ ایڈووکیٹ جنر ل  کا کہنا تھاکہ سندھ حکومت قومی رابطہ کمیٹی کے فیصلوں کی تعمیل کرتی ہے، ایڈووکیٹ جنرل نے کہاکہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہاکہ پنجاب اور اسلام آباد میں مالز کھولنا قومی رابطہ کمیٹی فیصلوں کے برعکس ہوگا ۔

چیف جسٹس نے کہاکہ حاجی کیمپ قرنطینہ مرکز پر کتنا پیسہ خرچ ہوا؟ ممبر این ڈی ایم اے نے بتایا کہ حاجی کیمپ قرنطینہ پر 59 ملین خرچ ہوئے، چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ قرنطینہ مراکز پر اتنا پیسہ کیسے لگ گیا؟ کیا قرنطینہ مراکز کیلئے نئی عمارتیں بنائی جا رہی ہیں؟ممبر این ڈی ایم اے نے بتایا کہ حکومت کی طرف سے صرف 2.5 ارب روپے ملے ہیں۔

چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کورونا کے ایک مریض پر اوسط کتنے پیسے خرچ ہوتے ہیں؟ کورونا پر خرچ ہونے والے اربوں روپے کہاں جا رہے ہیں؟تقریباً 200 ارب روپے خرچ کردئیے گئے،ہر آدمی پر 25 لاکھ روپے خرچ ہورہے ہیں،یہ صرف این ڈی ایم اے کا بجٹ ہے باقی صوبوں اور اداروں کو ملا کر 500 ارب بنے گا،اگر ہمارے ملک میں، 500، 800، لوگ مررہے ہیں تو ہم کیا کررہے ہیں،  پیسہ ایسی جگہ چلا گیا ہے جہاں سے ضرورت مندوں کو نہیں مل سکتا۔

چیف جسٹس نے کہاکہ ایک مریض پر لاکھوں روپے خرچ ہونے کا کیا جواز ہے؟ ممبر این ڈی ایم اے نے کہاکہ میڈیکل آلات، کٹس اور قرنطینہ مراکز پر پیسے خرچ ہوئے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کرونا اس لئے نہیں آیا کہ کوئی پاکستان کا پیسہ اٹھا کر لے جائے، ٹڈی دل کیلئے این ڈی ایم اے نے کیا کیا ہے؟ چیف جسٹس نے کہاکہ ٹڈی دل آئندہ سال ملک میں فصلیں نہیں ہونے دے گا۔

چیف جسٹس نے کہاکہ صنعتیں فعال ہوجائیں تو زرعی شعبہ کی اتنی ضرورت نہیں رہے گی، صنعتیں ملک کی ریڑھ کی ہڈی تھیں،اربوں روپے ٹین کی چاردہائیوں پر خرچ ہو رہےہیں ۔جسٹس قاضی محمد امین کا کہنا تھا کہ مجھے نہیں لگتا کورونا پر پیسہ سوچ سمجھ کر خرچ کیا جا رہا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کورونا کا علاج صرف کمرے میں بند کرنا ہے، کیا کمرے میں بند ہونے پر 25 لاکھ خرچ ہوتے ہیں؟چیف جسٹس کے استفسار پر وفاقی سیکرٹری صحت نے بتایا کہ پولن الرجی سے کم و بیش ایک ہزار لوگ مرتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہاکہ ابھی ڈینگی آئے اور پچاس ہزار مر جائیں گے، سرکاری ہسپتال میں کرونا مثبت نجی میں منفی نکلتا ہے، جسے دل کرتا ہے کرونا کا مریض قرار دے دیا جاتا ہے، پیسہ وہاں خرچ ہو رہا جہاں لگا نظر بھی نہیں آ رہا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کورونا کے حوالے سے اربوں روپے خرچ ہو چکے ہیں، یہ کہاں جا رہے ہیں؟ ممبر این ڈی ایم اے کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے 25 ارب مختص ہوئے ہیں،یہ تمام رقم ابھی خرچ نہیں ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ25 ارب تو آپ کو ملے ہیں صوبوں کو الگ ملے ہیں احساس پروگرام کی رقم الگ ہے، 500 ارب روپے کورونا مریضوں پر خرچ ہوں تو ہر مریض کروڑ پتی ہوجائے گا،یہ سارا پیسہ کہاں جا رہا ہے؟اتنی رقم لگانے کے بعد بھی اگر 600 لوگ جاں بحق ہو گئے تو ہماری کوششوں کا کیا فائدہ؟کیا 25 ارب کی رقم سے آپ کثیر منزلہ عمارتیں بنا رہے ہیں؟ممبر این ڈی ایم اے کا کہنا تھا کہ یہ رقم ابھی  پوری طرح ملی نہیں اور اس میں دیگر اخراجات بھی شامل ہیں۔

این ڈی ایم اے کی رپورٹ پیش سپریم کورٹ میں زیر سماعت کورونا ازخود نوٹس کیس میں چاروں صوبائی حکومتوں کے بعد قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے قائم ادارے نیشنل ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) نے بھی اپنی تحریری رپورٹ جمع کروا دی ہے ۔

123 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ این ڈی ایم اے کیلئے وزیراعظم نے 25.3 ارب روپے مختص کیے جبکہ وزارت صحت کی جانب سے 50 ارب روپے مختص کیے گئے جو تاحال جاری نہیں کیے گئے،ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی جانب این ڈی ایم کو 8 ارب روپے ملے، چینی حکومت کی جانب سے 64 کروڑ روپے کی گرانٹ دی گئی۔

عدالت کو بتایا گیا ہے کہ این ڈی ایم اے امداد صرف سامان کی صورت میں وصول کرتی ہے کیش رقم کی صورت میں نہیں،این ڈی ایم اے امداد کا آڈٹ کرانے کے لیے آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے درخواست کر چکی ہے ۔

سرحدوں پرقائم قرنطینہ مراکز کے حوالے سے تفصیلات بھی رپورٹ میں شامل کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ تفتان، چمن اور طورخم پر 1200 پورٹ ایبل کنٹینر تیار کیے گئے ہیں، تفتان پر 600, چمن 300 اور 300 طورخم کے لیے مختص کیے گئے ہیں،تفتان پر 1300 افراد، چمن میں 900 اور طورخم پر 1200 افراد کو رکھنے کی گنجائش ہے۔

رپورٹ کے متن میں کہا گیاہے کہ طورخم پر قرنطینہ مرکز کے لیے 300 کمرے تعمیر کر لیے گئے ہیں جبکہ1200 اضافی کمرے تعمیر کرنے کے انتظامات بھی کیے گئے ہیں، چمن میں 300 کمروں میں 130 زیر تعمیر ہیں، تفتان میں 600 میں سے 202 تکمیل کے قریب ہیں۔

عدالت کو بتایاگیا ہے کہ لوکل ملٹری اتھارٹی کے مطابق مزید کمروں کی ضرورت نہیں ہے، لوکل ملٹری اتھارٹی نے ٹینٹ ویلیج کی صورت میں 1300 کمروں کی سہولت فراہم کی ہوئی ہے،پاکستان ریلویز نے بھی دو ٹرینیں بطور قرنطینہ مختص کر رکھی ہیں۔