کیا مسلم لیگ ن حکومت بنا کر پھنس گئی ہے…؟

کیا مسلم لیگ ن حکومت بنا کر پھنس گئی ہے…؟

10اپریل کی تاریخ کے آغاز کی ابتدائی ساعتوں میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریکِ عدمِ اعتماد کی کامیابی کے بعد وزیرِ اعظم میاں محمد شہباز شریف کی حکومت برسراقتدار آئی تو اس حکومت سے یہ اُمیدیں باندھنا کوئی ایسا غیر فطری اور غیر متوقع امر نہیں تھا کہ یہ حکومت عمران خان کے دور میں ملکی انتظام و انصرام سمیت قومی زندگی میں در آنے والی خرابیوں اور ملک و قوم کو درپیش معاشرتی اور اخلاقی زوال ، معاشی چیلنجز اور بد تر اقتصادی صورتحال سے جلد نبردآزما ہونے میں کامیاب ہی نہیں ہوگی بلکہ جلد ہی ایسے مؤثر ، دیر پا اور نتیجہ خیز اقدامات اور فیصلے بھی کرے گی جن سے 22کروڑ آبادی کے اس ملک کی عوام کو جہاں عافیت ، اطمینان اور آسانیاں مہیا ہونگی وہاں ملک کی ابتر معاشی صورتحال میں بھی بہتری کے آثار نمایاں ہونگے۔ بلا شبہ وزیرِ اعظم میاں محمد شہباز شریف نے بطور وزیرِ اعلیٰ پنجاب اپنے 10سالہ ادوارِ حکمرانی میں تیزی سے فیصلے کرنے اور بروقت اقدامات اُٹھانے کے حوالے سے اپنے آپ سے وابستہ "شہباز سپیڈ"کی شہرت کو برقرار رکھتے ہوئے چند ایک اقدامات اور کچھ فیصلے بھی کئے ہیںاور تیزی سے بھاگ دوڑ کرتے ہوئے اپنی متحرک او ر انتھک شخصیت کا ثبوت بھی دیاہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سب کچھ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا اور نہ اسے کافی سمجھا جا سکتا ہے۔ ملک کو جس طرح کے سیاسی ، آئینی ، انتظامی اور  معاشی بحرانوں کا سامنا ہے ان کے لیے ان سے بڑھ کر کوئی تیزی سے اقدامات اور مشکل فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ پھر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ سابقہ وزیرِ اعظم عمران خان ایک ایسے عفریت کے روپ میں سامنے آ چکے ہیں جو دن بدن تقویت حاصل کرتے ہوئے ہر چیز کو تہس نہس کرنے کی راہ پر گامزن ہو چکا ہے تو اسکا کیا توڑ کیا جا رہا ہے۔
یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ یہ سارے خدشات ، خطرات اور ملک و قوم کے مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال کے امکانات اپنی جگہ موجود ہی نہیں ہیں بلکہ دن بدن زور بھی پکڑتے جارہے ہیں۔ اس سیاق و سباق میں یہ کہنا یا سمجھنا شائد غلط نہ ہو کہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت کا خاتمہ اور مسلم لیگ ن کا اتحادی جماعتوں کے اشتراک اور تعاون سے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھال کر حکومت قائم کرنا ایک ایسا فیصلہ ثابت ہو رہا ہے جس سے حکومت میں شامل اتحادی جماعتیں بالعموم اور مسلم لیگ ن بطورِ خاص ایسی صورتحال سے دو چار ہو چکی ہے جس سے ایک طرف عوام میں اس کی مقبولیت میں کمی کے آثار نمایاں ہونا شروع ہو گئے ہیں تو دوسری طرف میاں شہباز شریف کی سربراہی میں قائم حکومت بالخصوص وزیرِ اعظم میاں محمد شہباز شریف کی اب تک کی کارکردگی پر انگلیاں اُٹھنا شروع ہو چکی ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہا اور سمجھا جا رہا ہے کہ عمران خان ایک ایسے عفریت کے روپ میں سامنے آ رہے ہیں جس سے نا صرف سیاسی حکمران لرزہ بر اندام ہیں بلکہ ریاستی ادارے یا اسٹیبلشمنٹ بھی پریشانی کا شکار ہے اور اُسے کچھ سوجھ نہیں رہا کہ وہ عمران خان کی آئے روز بڑھتی ہوئی منفی بیان بازی اور عسکری قیاد ت کو نشانہ بنانے اور اس کی صفحوں میں تفریق کے منفی بیج بونے کی دانستہ کوششوں اور تابڑ توڑ حملوں کا کیا جواب دے؟
صورتحال کی یہ منظر کشی اگر سو فیصد درست نہیں ہے تو ایسی بھی نہیں ہے جسے آسانی سے رد کیا جا سکے۔ بلا شبہ مایوسی اور نامرادی بڑھ ہی نہیں رہی ہے بلکہ کئی سنجیدہ خو ، معتبر، موقر اور باخبر تجزیہ نگاروں، مبصروں، کالم نگاروں اور وی لاگرز کے تبصروں ، تجزیوں اور حالاتِ حاضرہ کے پروگراموں میں اس کی جھلک بھی نظر آ رہی ہے۔ سچی بات ہے کہ فروری کے آخر میں جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا تذکرہ سامنے آیا اور پیپلز پارٹی اس کی بڑی دعویدار بن کر سامنے آئی اور جناب آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے لاہور میں میاں شہباز شریف اور محترمہ مریم نواز سے ملاقات کی اور لندن میں مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف سے بھی رابطے کئے اور تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے حوالے سے مشاورت کی تو میرا اپنا ذاتی تجزیہ یہ تھا کہ جناب آصف علی زرداری عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے لیے تحریک عدم اعتماد کا جو ڈو ل ڈال رہے ہیں اس سے اس کے کچھ مخصوص مفادات وابستہ ہو سکتے ہیں۔ ان حالات میں مسلم لیگ ن کو اس بارے میں سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا چاہیے کہ کہیں تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کا فیصلہ ان کے روایتی بیانیے اور مؤقف سے متصادم تو نہیں ہے اور کل کلاں تحریک عدم اعتماد پیش کر دی جاتی ہے تو یہ مسلم لیگ ن کے گلے کا ہار Loyalbility تو نہیں بن جائے گی۔ 
آج کے حالات کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ ایسا ہی ہوا۔ تحریک عدم اعتماد کو کامیابی  سے ہمکنار کرنے کے لیے مسلم لیگ ن کو  جناب آصف علی زرداری ، بلاول بھٹو زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ مل کر کیا کچھ پاپڑ بیلنا نہیں پڑے یا کیا کچھ کمپرومائز نہیں کرنا پڑے۔ یہاں تک مسلم لیگ ن کی قیادت پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا تاج اپنے حریف چودھری پرویز الٰہی کے سر پر سجانے کو تیار ہوگئی۔ حالات و اقعات کیا رخ اختیار کرتے رہے یہ سب تاریخ کا حصہ ہے ۔ تاہم یہ بات واضح ہے کہ مسلم لیگ ن کو موجودہ اپوزیشن کی بڑی جماعت ہونے اور تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں اپنی جماعت کے صدر میاں محمد شہباز شریف کو وزارتِ عظمیٰ کے منصبِ جلیلہ پر براجمان ہوتا دیکھنے کے لیے بلا شبہ قدم قدم پر کمپرومائز ہی نہ کرنا پڑے بلکہ کئی معاملات میں اپنے مسلمہ روایتی مؤقف سے بھی پیچھے ہٹنا پڑا۔ اب اتنا کچھ کرنے اور قربانیاں دینے کے بعد مسلم لیگ ن انجامِ کار گھاٹے کا شکار ہوتی نظر آتی ہے تو یقینا یہ اس کی قیادت کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔ 
یہاں تھوڑا سا ذاتی حوالہ دینا چاہوں گا۔ بفضلِ تعالیٰ ہم چند احباب کا ایک مختصر گروپ ہے جس میں حالاتِ حاضرہ  اور ملکی و قومی معاملات کے بارے میں خیال آرائی کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ مہینے میں ایک آدھ بار ہم لوگ (کل چھ افراد) کھانے پر بھی مل بیٹھتے ہیں۔ ہمارے اس گروپ کے ایک انتہائی اہم رکن جناب ڈاکٹر ندیم اکرام ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب مرنجاں مرنج اور ہشاش بشاش مزاج کے مالک ہونے کے ساتھ ملکی و قومی معاملات اور تازہ ترین سیاسی صورتحال پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ ان کے تبصرے اور تجزیے بڑے جاندار اور فکر انگیز ہوتے ہیں۔ پچھلے دنوں وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف اور ان کی کابینہ کے مسلم لیگی ارکان اپنے قائد میاں محمد نواز شریف کی کال پر لندن گئے تو اس موقع پر ڈاکٹر ندیم اکرام سے واٹس ایپ کے ذریعے مکالمہ ہوا۔ میں نے تازہ ترین صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے انھیں لکھا، "ڈاکٹر صاحب ، عمران خان کی صورت میں جس عفریت کا سامنا ہے اس کے لیے ضروری ہی نہیں بلکہ بہت ضرور ی ہے کہ مسلم لیگ ن کی صفحوں میں ن،ش، م  کی کسی طرح کی تفریق کے بجائے مکمل یکجہتی اور اتحاد و اتفاق کا مظاہر ہ سامنے آئے۔ تحریک عدم اعتماد پر جانے سے قبل سوچنا چاہیے تھا کہ یہ اقدام ہمارے روایتی بیانیے سے متصادم تو نہیں ہے۔ اب آپ کے لیے اپنے اتحادیوں کو ساتھ لے کر چلنا بھی ضروری ہے۔ جناب آصف علی زرداری نے (کل) جو کچھ کہا ہے اُس سے اُن کی سوچ کا پتہ چلتا ہے۔ اُن کا یہ کہنا کہ میں نے میاں صاحب (میاں محمد نواز شریف) کو سمجھا دیا ہے بڑے معنی رکھتا ہے۔ انتخابی اور نیب قوانین میں ضروری اصلاحات کے بغیر انتخابات میں جانا بلا شبہ ایک طرح کی خودکشی ہو سکتی ہے تاہم یہ سب کچھ جلد سے جلد مکمل ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ میاں شہباز شریف کی حکومت کو ڈلیور بھی کرنا ہوگا جو ابھی تک نظر نہیں آ رہا۔ تاہم یہ تحریک عدم اعتماد کی برکتیں ہیں کہ لیگی قیادت لندن یاترا پر پہنچی ہوئی ہے تو حمزہ شہباز شریف قطر کا چکر لگا کر اپنی والدہ محترمہ اور کئی سال سے جدا اپنے بھائی سلمان شہباز شریف سے ملاقات کرکے آ چکے ہیں۔ اچھی بات ہے بڑے میاں صاحب نے فوری انتخابات کی طرف جانے کے بجائے اصلاحات کے پروگرام سے اتفاق کیا ہے۔ "
میسج کی صورت میں قلم برداشتہ کے طور پر لکھے یہ جملے کتنی اہمیت کے حامل ہیں اس سے قطع نظر آخر میں یہی کہا اور سمجھا جا سکتا ہے کہ میاں محمد شہباز شریف کی حکومت کو اس طرح ڈلیور کرنا ہوگا کہ اُس کے فوری نتائج سامنے آئے اور عوام کو پتہ چلے کہ ایک جاندار ، مضبوط  اور مستحکم حکومت برسر اقتدار ہے جو تمام مشکلات ، مسائل ، چیلنج اور عمران خان کے منفی پراپیگنڈے کے اثرات سے عہدبرآ ہونے کی اہلیت ، صلاحیت اور عزم و حوصلے سے متصف ہے۔ وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ وہ جو اعلانات کریں ، جو فیصلے کریں اور جو اقدامات اُٹھائیںخوب سوچ سمجھ کر اور اُن کے تمام مثبت اور منفی پہلوؤں کو سامنے رکھ کر کریں۔ یہ نہ ہو کہ اُنھیں اپنے اعلانات اور فیصلوں سے پیچھے ہٹنا پڑے۔ یہاں تفصیل میں جانے کا موقع نہیں تاہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب تک انھوں نے کئی ایسے اعلانات کئے ہیں جن پر پوری طرح عملدرآمد نہیں ہو رہا ہے۔

مصنف کے بارے میں