انتخاب کرلیں

انتخاب کرلیں

پاکستان اور سری لنکا دوالگ الگ ملک ہیں اِن میں چند برس پیشتر تک ترقی پذیر ہونے کے سوا کوئی قدر مشترک نہیں تھی مگرآجکل دونوں کوہی معاشی بحران کاسامنا ہے اسی وجہ سے کافی عوامل اور مسائل ایک جیسے نظرآتے ہیں فرق بس اتنا رہ گیا ہے کہ سری لنکا جس قسم کے معاشی بحران سے دوچار ہے وہ دیوالیہ ہو چکا ہے مگر پاکستان میں ایسے حالات ابھی نہیں بنے لیکن ایسے حالات دو یا تین ماہ کی دوری پررہ گئے ہیں سری لنکا کے پاس زرِ مبادلہ کے ذخائر ختم ہو نے سے اُس کے عالمی سطح پر نادہندہ ہو نے کا اعلان ہوا زرِ مبادلہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ ملک تیل و گیس تو ایک طرف، کھانے پینے کی اشیاء تک درآمدکرنے سے قاصر ہے اندازہ کریں جس ملک کا خورونوش کی زیادہ تر اشیا درآمد کرنے پر انحصار ہو وہ کِن حالات سے دوچارہوگا ؟کھانے پینے کی اشیا کی قلت سے یہ ملک خونی مظاہروں کی لپیٹ میںہے دوکروڑ اکیس لاکھ چھپن ہزار کی کُل ملکی آبادی چوبیس گھنٹوں میں صرف دووقت کھانا کھا رہی ہے عوامی غیض و غضب سے طاقتور حکمران پاکسا خاندان اپنی حرکتوں سے قابلِ رحم حالت کو پہنچ چکا ہے معاشی بحران نہ صرف سیاسی تبدیلیوں کا باعث بنا ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں خواندگی کے لحاظ سے سرفہرست ملک کے شہری تحمل ،شائستگی اور نفاست تک بالائے طاق رکھ چکے دراصل کویڈ19سے دنیا میں تبدیلیاں آئیں اِن تبدیلیوں سے سیاحت کی صنعت سب سے زیادہ متاثر ہوئی لیکن سری لنکن قیادت نے حالات کا ادراک کرنے کی بجائے سیاحوں کی آمد، ترسیلاتِ زراورمحدودقسم کی برآمدات پر ہی تکیہ رکھا سیاحت ختم ہونے سے  اخراجات کے لیے بیرونی قرض لینا شروع کردیے باقی کمی نوٹ چھاپ کردورکرناپڑی لیکن یہ معاشی پالیسی لے بیٹھی افراطِ زر اور مہنگائی میں بے تحاشا اضافہ ہوتا گیا کیونکہ طاقتور حکمران خاندان نے رہنماکی طرح کام کرنے کی بجائے نااہل کی طرح اقتدارسے لطف اندوزہونے کا انتخاب کیا نااہل اقتدار سے الگ ہو چکے مگر ملک نے مستقبل میں آگے کیسے بڑھنا ہے؟بے یقینی ہنوزبرقرارہے ۔
پاکستان نے ابتدا میں ہی معاشی مسائل کی وجہ سے قرض لینا شروع کیا قرض حاصل کرنا بُری بات نہیں امریکہ،روس اورچین جیسے ملک بھی قرض لیتے ہیں لیکن حکمران عیش و عشرت پر خرچ کی بجائے ایسے پیداواری منصوبوں پر خرچ کرتے ہیں جن سے برآمدات میںاضافہ اور عام آدمی کی معیارِ زندگی بہتر ہو پاکستان نے بھی شروع میں معاشی و عسکری مجبوری کی وجہ سے قرض لیا مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعد میں قرض لیکرپیسہ غیر پیداواری منصوبوں کی نذر کیاگیا یوں نہ تو روزگار کے مواقع پیدا ہوئے اور نہ ہی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہو سکاحکمران طبقے کو ڈالر کی ہوس جنون اور بیماری کی صورت اختیار کر گئی قومی معیشت کو قرض کے ڈالروں سے رواں رکھنے کا نتیجہ ہے کہ کئی دہائیوں سے درآمدات میں اضافہ جبکہ برآمدات میں کمی 
ہوتی جارہی ہے توانائی بحران صنعتیں رواں رکھنے میں الگ رکاوٹ ہے پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن مناسب منصوبہ بندی نہ ہونے کی بنا پر زرعی مصنوعات گندم ،چینی اور کپاس بھی درآمد کی جاتی ہے جس ملک کا حکمران طبقہ اِتنا نااہل ہو وہاں ترقی اور خوشحالی نہیں آتی یہ نااہلی کا نتیجہ ہے کہ باون ہزار ارب کے مقروض ہو چکے اگر ڈالروں کے حوالے سے حساب کریں تو یہ رقم 268 ارب ڈالر بنتی ہے اِ ن میں سے زیادہ تر قرض ملکی اور غیر ملکی ایسے مالیاتی اِداروں کا ہے جو امریکہ اور مغربی ممالک کے زیرِ اثر ہیں ہم نے ذرا سا روسی کیمپ کے قریب ہونے کی کوشش کی تو اِن مالیاتی اِداروں نے قرض دینے سے ہاتھ کھینچ لیا ہے جس سے زرِ مبادلہ کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں اور کسی وقت بھی ہم سری لنکا جیسے حالات سے دوچار ہو سکتے ہیں آج پاکستان میں پیداہونے والا ہر بچہ اپنی پیدائش کے ساتھ ہی اڑھائی لاکھ روپے کا مقروض بن جاتا ہے جس کا حکمران طبقے کو حکمت و تدبر سے حل تلاش کرنا ہو گا کوتاہی کی صورت میں نہ صرف ملک کی ساکھ متاثر ہو گی بلکہ یہی حکمران طبقہ سری لنکا کی طرح عوامی غیض و غضب کا شکار ہو سکتا ہے ملک کی ساکھ کے ساتھ اُن کی اپنی سیاست بھی دائو پر لگ چکی اب یہ حکمرانوں نے فیصلہ کرنا ہے کہ ملک کو معاشی گرداب سے نکال کر طویل عرصہ اقتدار میں رہنا ہے یاکچھ کرنے کی بجائے تاریخ کے کوڑے دان میں دفن ہونا ہے ابھی وقت بھی ہے اورفیصلہ بھی اُن کے اپنے ہاتھ ہے دنیا کے ساتھ عوام کی نظریں اُن کے روزوشب کا جائزہ لے رہی ہیں اِس لیے جتنی جلدی رہنماکی طرح معاشی مسائل حل کریں وگرنہ نااہلی کے انتخاب سے تاریخ کے اوراق میں گم ہو جائیںگے۔
زرِ مبادلہ کے ذخائر اِتنی تیزی سے کم کیوں ہو رہے ہیں وجوہات جاننا کوئی مشکل نہیں جب آمدنی سے اخراجات بڑھا لیے جائیں تو ضروریات پوری کرنے کے لیے قرض لینے کی نوبت آتی ہے اور پھر قرض دینے والے ملک یا اِدارے مجبوریوں کا فائدہ بھی اُٹھاتے ہیں ایک طرف زیادہ شرح سود کے ساتھ قرض دیا جاتا ہے تو ساتھ ہی ایسی کڑی شرائط بھی لگائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے قرض حاصل کرنے والی ریاست کو پابندکیا جاتا ہے اِ ن شرائط کی بناپر آزاد خارجہ پالیسی اختیار کرناممکن نہیں رہتا پاکستان نے امریکہ کی بجائے روس سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی تویہ مالیاتی اِدارے ناراض ہو گئے اور مزید قرض دینے کی بجائے پُرانے قرض کی ادائیگی پر بضد ہیں لیکن ملک کی معاشی حالت ایسی نہیں کہ فوری طور پر زرِ مبادلہ کے ذخائر سے اتنی بھاری رقم ادا کی جا سکے اگر ایسا کرتے ہیں تو تیل و گیس کی درآمدات کے قابل نہیں رہیں گے یوں صنعت و زراعت بھی متاثر ہوں گی اگر ماضی کے حکمران رہنما بن کر ملک کی معاشی بنیادیں مضبوط کرتے تو آج نہ صرف پاکستان کا شمار خوشحال اور ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا بلکہ اُن کا تاریخ میں ذکر اچھے ناموں سے ہوتا مگر انھوں نے رہنماکہلونے کی بجائے محض وقت گزارنے جیسی نااہلی کا انتخاب کیا جس کے نتیجے میں بدنامی کی عمیق گہرائیوں میں جا گرے۔
وقت تیزی سے گزررہا ہے لیکن اب بھی قیادت فیصلے کرنے کی بجائے دن گزارنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے پاکستان کے پاس کچھ زیادہ مواقع نہیں رہے وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ قرض ادا کرنے کے لیے مزید قرض لینے کا آپشن درست نہیں اسی وجہ سے ملک کو موجودہ مسائل کا سامنا ہے دوسرا آپشن یہ ہے کہ درآمدات میں فوری کمی لاکر برآمدات بڑھاکر زرِ مبادلہ حاصل کیا جائے اور قرض کی ادائیگی سے ملک پر قرضوں کے بوجھ کو کم کیا جائے تیسرا یہ کہ نہ صرف غیر پیداواری منصوبے ختم کیے جائیں بلکہ غیر ضروری اخراجات کا سلسلہ بھی ترک کیا جائے چند عالمی اِدارے اگر رضا مند نہیں ہوتے تو دوست ممالک سے ادائیگی میں توسیع لینے کے آپشن پر کام کیا جائے اہلیت ہوتو اِ ن راستوں کا انتخاب کوئی بہت زیادہ مشکل نہیں صدقِ دل سے کوشش کی جائے تو اچھے نتائج بھی ممکن ہے اگر اقتدار سے لطف اندوز ہونا ہی مقصد ہے اورصرف اپنے خاندان کی آنے والی نسلوں کو خوشحال بنانا ہی ترجیح ہے تو پھر نیک نامی کی توقع مت رکھیں وقت محدود ہے اسی محدود وقت میں انتخاب کر لیں وگرنہ صرف پچھتاوارہ جائے گا۔

مصنف کے بارے میں