عمران ریاض بازیابی کیس: سر ایجنسی کو بلائیں، وکیل، ہم ایجنسی کو کیوں بلائیں؟ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ

عمران ریاض بازیابی کیس: سر ایجنسی کو بلائیں، وکیل، ہم ایجنسی کو کیوں بلائیں؟ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ

لاہور:لاہور ہائیکورٹ نے اینکر پرسن عمران ریاض کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت کی جس میں عدالت نے پولیس کو کل تک پیش رفت سامنے لانے کی ہدایت کی ہے۔

چیف جسٹس محمد امیر بھٹی نے عمران ریاض کے والد محمد ریاض کی درخواست پر سماعت کی جس میں ڈسٹرکٹ پولیس افسر عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ 

چیف جسٹس نے عمران ریاض کی بازیابی کے لیے پولیس کے اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے تو ابھی تک کچھ نہیں کیا۔

چیف جسٹس نے ڈی پی او کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے یہاں کہا تھا کہ میں سب کچھ دیکھوں گا انوسٹی گیشن دیکھوں گا، یہ کرنے کے لیے آپ نے 48 گھنٹے مانگے تھے۔ لیکن آپ نے تو بس ایک سب انسپکٹر تعینات کردیا باقی سب کو آپ نے کہا جاؤ موج کرو۔ پولیس تو کہہ رہی ہے کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے، پولیس نے بس ایجنسیز کو لیٹر لکھے اور گھر جا کر سو گئے۔

جسٹس محمد امیر بھٹی نے کہا کہ آپ نے ہائی پروفائل کیس کی تحقیقات ایک سب انسپکٹر کو دے دی کیا آپ کی اس کیس میں دلچسپی نہیں ہے؟ جس پر ڈی پی او سیالکوٹ نے عدالت کو کہا کہ ہم اپنی  پوری کوشش کر رہے ہیں ۔

وکیل عمران ریاض نے کہا کہ سر کچھ نہیں ہو رہا پولیس نے صرف ٹرک کی بتی کے پیچھے لگایا ہوا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک بندہ 6 دن سے غائب ہے، ہمارے لوگ کیا کر رہے اس کی زندگی کو خطرہ ہے، ایک بندے کو اٹھا لیا گیا اس کا ذمہ دار کون ہے۔ تاہم چیف جسٹس نے ڈی پی او سے کہا کہ میں آپ کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہوں۔

جسٹس محمد امیر بھٹی کا مزید کہنا تھا کہ پولیس ہمیں بتائے کہ ان کے بس میں کچھ ہے کہ نہیں، اگر آپ کے بس کی بات نہیں ہے تو ہم کسی اور ایجنسی سے پوچھ لیتے ہیں۔ اگر عمران ریاض نے کچھ غلط کیا تو آپ مقدمہ درج کریں ہم نہیں روکیں گے۔ لیکن پولیس نے تو وہ تک بھی نہیں کیا۔ اس پر ڈی پی او کا کہنا تھا کہ ہم نے اس سارے معاملے پر ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی ہے۔ 

وکیل عمران ریاض نے چیف جسٹس سے کہا کہ عدالت آئی جی پنجاب اور ایجنسی کے کسی ذمہ دار افسر کو طلب کریں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہمارے پاس کون سا اختیار ہے کس اختیار کے تحت بلائیں؟ وکیل نے کہا کہ آپ معاونت کے لیے ایجنسی کے ذمہ دار افسر کو طلب کر سکتے ہیں۔جس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ آپ جے آئی ٹی کی تشکیل کے لیے حکومت کو لکھ سکتے ہیں، ہم ایجنسی کو کیوں بلائیں ہم نے کیا لینا ہے ان سے یہ حکومت کا کام ہے آپ ان سے کو آرڈینیشن کر سکتے ہیں۔

 بعدازاں لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب کے انسپکٹر جنرل، سیکریٹری داخلہ اور ایڈیشنل چیف سیکریٹری کو دو گھنٹے میں طلب کیا۔ عدالتی طلبی پر آئی جی، سیکریٹری داخلہ اور دیگر افسران کے پہنچنے پر دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس نے آئی جی سے استفسار کیا کہ آئی جی صاحب یہ کیا معاملہ ہے؟

 آئی جی پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ ہم جیو فیسنگ کا استعمال کر رہے ہیں،سی سی ٹی وی فوٹییجز کو بھی دیکھ رہے ہیں مزید براں میری سیکٹر کمانڈر سے بات ہوئی ہے ملنا پڑا تو دوبارہ بھی ملیں گے، ہم ایک خصوصی ٹیم بنا لیتے ہیں۔

 ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے کہا کہ ہمارا کنسرن ہے کہ عمران ریاض کدھر ہیں، ملک کا ایک شہری مسنگ ہے عمران ریاض کو زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا، حکومت کی ذمہ داری ہے اسے بازیاب کرانا یہ کوئی احسان نہیں کر رہے۔

 جس پر آئی جی پنجاب نے کہا کہ اس معاملے پر ہمیں بہت کام کرنا پڑے گا، کیونکہ عمران ریاض کی گاڑی موٹروے پر نہیں آئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایس آئی اور ائی بی سے بات ہوئی ہے آپ ہمیں کچھ مہلت دیں، سائینٹیفک طریقے سے اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔

 چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے پاس یہی ایجنسیز ہیں جن کو ہم نے کہنا ہے کہ باقی لوگوں کو ساتھ لیں اور بندہ بازیاب کریں، ڈی پی او نے بھی کوئی خاطر خواہ رزلٹ نہیں دیے۔

تاہم آئی جی پنجاب نے عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ آئی ایس آئی اس معاملے میں ہمارے ساتھ تعاون کر رہی ہے۔

 بعدازاں چیف جسٹس نے آئی جی کو ہدایت کی کہ کل 12 بجے تک کا وقت دے رہاں ہوں عمران ریاض کولاہور ہائی کورٹ میں پیش کریں، تمام ایجنسیوں سے رابطہ کرکے ان کی باز یابی کے لیے ہر ممکن کوشش کریں، ہم آپ کو چارج دے رہے ہیں، اب جواب دہ آپ ہوں گے اور باز پرس بھی آپ کی ہو گی۔

چیف جسٹس نے سماعت کل بارہ بجے تک ملتوی کر دی۔

 خیال رہے کہ 11 مئی کو گرفتاری کے بعد عمران ریاض خان کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں، انہیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد جلاؤ گھیراؤ اور کشیدگی کے دوران حراست میں لیا گیا تھا۔