میری لاش کو محفوظ کریں تاکہ میں دوبارہ زندہ ہو سکوں

 میری لاش کو محفوظ کریں تاکہ میں دوبارہ زندہ ہو سکوں

لندن: " 14 سالہ لڑکی نے یہ باتیں اپنی حالیہ موت سے قبل جج کے  نام  یہ  تحریرلکھی  کہ  وہ دفن ہونا نہیں چاہتی، بلکہ اس کی خواہش ہے کہ لاش کو منجمد کردیا جائے – کیونکہ اسے امید ہے کہ کینسر کا علاج ہونے پر وہ مستقبل میں اپنی زندگی دوبارہ شروع کر سکتی ہے۔ "میں زندہ رہنا اور لمبی عمر جینا چاہتی ہوں اور میرے خیال میں مستقبل میں ہو سکتا ہے کہ انہیں میرے کینسر کا علاج مل جائے اور میں جاگ جاؤں۔

۔ جس میں اس نے مزید کہا کہ "لاش محفوظ ہونے کی وجہ سے مجھے علاج کا اور دوبارہ جاگ اٹھنے کا موقع مل سکتا ہے – چاہے ایک صدی کے بعد۔"اس کے سادہ الفاظ کی وجہ سے ہائی کورٹ کے جج پیٹر جیکسن قائل ہوئے اور یوں اس نوعمر لڑکی کی آخری خواہش مکمل ہوئی۔ اسے انگلینڈ میں بلکہ دنیا میں بھی اپنی نوعیت کا پہلا کیس سمجھا جا رہا ہے۔جج نے کہا کہ لڑکی نے 37 ہزار پاؤنڈز کی لاگت پر حفاظت کا سب سے بنیادی آپشن منتخب کیا۔ بچی کے طلاق یافتہ والدین اس عمل کے بارے میں متفق نہیں تھے، ماں حمایت میں تھی اور باپ نے ابتدا میں نہ کہا تھا، البتہ انہوں نے اپنی بیٹی کی موت قریب آنے پر اپنے رویے میں لچک پیدا کی۔

لڑکی جس کا نام قانونی وجوہات کی بنیاد پر سامنے نہیں لایا گیا، نے اپنی آخری رسومات کے اختیارات صرف ماں کو دیے تاکہ اس کے جسم کو محفوظ بنایا جا سکے۔ منجمد کرکے محفوظ کرنے کا طریقہ ایک غیر ثابت شدہ تکنیک ہے جس کے بارے میں کچھ لوگوں کا سمجھنا ہے کہ ان منجمد اجسام کو مستقبل میں دوبارہ زندگی کی طرف لایا جا سکتا ہے۔جج نے یہ فیصلہ اکتوبر میں ہی کرلیا تھا، اور میڈیا کوریج پر پابندی عائد کردی تھی تاکہ بچی کی زندگی میں اسے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ بچی بہت زیادہ بیمار تھی اور عدالت نہیں آ سکتی تھی، اس لیے جج خود ہسپتال گئے۔ اب بچی کا جسد امریکا میں خصوصی تنصیب بھیجا جائے گا۔