سی ایریا میں فلسطینیوں کی آبادکاری

سی ایریا میں فلسطینیوں کی آبادکاری
سورس: فائل فوٹو

فلسطینی کابینہ کے حالیہ اجلاس کے فیصلوں کی سرکاری نیوز ایجنسی نے جو رپورٹ جاری کی، اس کی سرخی تھی،” حکومت اُن گریجویٹس کی مکمل سپورٹ کرے گی جوکہ وادی اُردن میں کام کرنے اور وہاں مستقبل آباد کاری کیلئے تیار ہوں“۔ اس خبر کی تفصیل یوں ہے کہ فلسطینی وزراءکی کونسل نے ایک منصوبے کی توثیق کی ہے جس میں ایریا ”سی“ میں آباد ہونے والے فلسطینیوں کو سپورٹ کیا جائے گا۔ ایریا سی مکمل طور پر اسرائیل کے انتظامی اورسکیورٹی کنٹرول میں ہے۔

یہ خبر میرے لئے خوشخبری سے کم نہیں۔ میں کئی مرتبہ اس بات کا ذکر کر چکا ہوں کہ اگلا فلسطینی میدان جنگ وادی اُردن اور دیگر علاقے ہوں گے جو کہ مغربی کنارے کے 60فیصد علاقے پر مشتمل ہیں مگر اس پر راملہ انتظامیہ کا کوئی کنٹرول نہیں۔ ایریا اے کی فلسطینی بستی صور باہر مسمار کئے جانے کے بعد وزیراعظم محمد اشتیہ ایک بیان میں کہا تھا کہ اگر اسرائیلی ایریا اے اور بی کو مسمار کرتے ہیں تو پھر وہ بھی ایریا سی کو مسمار کر یں گے۔ ایریا اے مکمل طور پر فلسطینی انتظامیہ کے کنٹرول میں تصور کیا جاتا ہے، جس کا مطلب ہاو

 
¿سنگ کے پرمٹ جاری کرنے کے اختیارات حاصل ہونا شامل ہے۔ یہودی بستیوں میں توسیع، فلسطینی بستیوں کی مسماری اور زمینوں پر جبری قبضے کے یکطرفہ اسرائیلی فیصلوں کو دیکھا جائے تو پھر اوسلو معاہدہ کب کا متروک ہو چکا ہے۔ ان حالات میں فلسطینی حکومت نے بھی کوئی نہ کوئی قدم اٹھانا ہی تھا۔

تاہم فلسطینی حکومت نے ایسی کوئی تفصیلات جاری نہیں کیں کہ ایریا سی میں منتقل ہونے والےبہادر فلسطینیوں کو سپورٹ کرنے کی کیا منصوبہ بندی اس نے کر رکھی ہے۔ وزیراعظم محمد اشتیہ ایریا سی میں آباد کاری کے خواہاں فلسطینیوں میں زمینیں تقسیم کرنے کا ایک جامع منصوبہ شروع کریں۔ وہ مقبوضہ علاقے جن پر 1967ءمیں تسلط جمایا گیا، آبادکاری کے حوالے سے قانونی رکاوٹیں نہیں، دیو اریں فلسطینیوں کی راہ میں حائل ہیں جو کہ کھڑی ہی ان کی رسائی ناممکن بنانے کے لیے کی گئی تھیں۔ وادی اُردن جو کہ فلسطینی حکومت کے فیصلے کا ہدف ہے، وہاں فلسطینیوں کی نقل و حرکت میں کوئی دیوار حائل نہیں۔

وادی اُردن کا بڑا حصہ صحرائی ہے، جہاں پانی سمیت دیگر بنیادی سروسز کا فقدان ہے۔ مگر آج کی دنیا میں پہلے سے تیار شدہ مکانات منتقل یا پھر خیمے لگائے جا سکتے ہیں؛ شمسی توانائی سے بجلی حاصل اور پانی کی فراہمی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ انٹرنیٹ سمیت دیگر سروسز کا حصول بھی ممکن ہے۔ یہ سروسز اگرچہ مہنگی ہوں گی، مگر 50لاکھ فلسطینیوں کو مغربی کنارے کے 40فیصد سے کم علاقے میں قید خانے میں رکھنے سے یہ کہیں بہتر ہے کہ قدرے کھلے مقام پر منتقل کر دیا جائے۔ بلاشبہ بڑے پیمانے پر فلسطینی آبادی کی ایک مخصوص علاقے میںمنتقلی کی اسرائیل مخالفت کرے گا، کیونکہ یہ منتقلی فلسطینیوں کی جدوجہد میں ایک واضح تبدیلی اور پیغام کی علامت ہو گی کہ فلسطینی اس تمام علاقے کو اپنی ریاست بنانا چاہتے ہیں جس پر 1947ءمیں قبضہ جمایا گیا تھا، جس میں مشرقی یروشلم، وادی اُردن اور غزہ کی پٹی شامل ہیں۔

ورلڈ بینک مغربی کنارے اور غزہ سے متعلق اپنی رپورٹس میں کئی مرتبہ نشاندہی کر چکا ہے کہ فلسطینیوں میں بے روزگاری مسلسل بڑھ رہی ہے، نوجوانوں کے لیے معاشی مواقع کا فقدان ہے۔ غزہ کی بگڑتی صورتحال اور مغربی کنارے میں سست روی کے باعث 2018ءسے فلسطینی معیشت میں کسی قسم کی شرح نمو دیکھنے میں نہیں آئی۔ 2018ءمیں بے روزگاری کی شرح 31فیصد تھی، جو 2021 میں بڑھ کر 52فیصد جبکہ رواں برس اسرائیلی جارحیت، کرونا اور دیگر مسائل کی بنا پر معاشی صورت احوال مزید دگرگوں اور بے روزگاری کی شرح مزید بڑھ چکی ہے، بے روزگاروں میں دو تہائی تعداد نوجوانوں کی ہے۔

فلسطینی حکومت کا نوجوانوں کی وادی اُردن منتقل ہونے کے لئے حوصلہ افزائی کا فیصلہ اوسلو معاہدہ کی ناکامی اور فلسطینی علاقوں کی غیر یقینی مستقبل کا ردعمل ہے۔ سیاسی انتظامیہ کے اس اہم فیصلے کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے مختلف شعبوں نے منصوبہ بندی شروع کر دی ہے۔ ایسے علاقوں کی نشاندہی کی ضرورت ہے جہاں ترجیحی بنیادوں پر آبادکاری ہو سکے۔ انتظامیہ ان بہادر فلسطینی نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ بنیادی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائے۔ اس حوالے سے سول سوسائٹی کو کردار ادا کرنے اور نئے آئیڈیاز دینے کی ضرورت ہے، عالمی ڈونرز اس سلسلے میں فنڈز مختص کریں۔ تاہم میدان جنگ ایریا سی میں منتقل ہونے پر اسرائیلی قابضین خاموش نہیں رہیں گے۔ ایریا سی منتقلی کو حقیقت بنانے کے لیے جامع اور قابل عمل حکمت عملی کی اس لیے بھی ضرورت ہے کہ اس کی کامیابی مستقبل کی آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی جانب ایک اہم قدم ثابت ہو گی۔

(بشکریہ:ڈیلی جارڈن ٹائمز)