پاپی پیٹوں سے اُٹھتے ہوئے گندے کیڑے!

پاپی پیٹوں سے اُٹھتے ہوئے گندے کیڑے!

مجھے سمجھ نہیں آرہی گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم کے بیان حلفی کی ”لیک“ کو کیانام دُوں؟ اِسے”عدالتی لیکس“ بھی کہا جاسکتا ہے، بیرون ملک پینڈورالیکس اور پانامہ لیک ہوئیں، اُن ”لیکس“ میں جن پاکستانی شخصیات کے نام آئے اُن کے خلاف محض کاغذی کارروائی ہی ہوئی جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا، پینڈورالیکس میں جن کے نام آئے اُن کے خلاف تو کاغذی کارروائی بھی نہیں ہوئی، پانامہ لیکس میں بے شمار شخصیات کو نظر انداز کرکے مخصوص سیاسی شخصیات کے احتساب کی جو کوشش ہوئی وہ اِس لیے ناکام ہوگئی کہ مقصد احتساب سے زیادہ ”انتخاب“ کا تھا، ....ہم یہ تو پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں شریف برادران نے اپنے دور اقتدار میں جائز ناجائز مال بنایا، مگر یہ پورے وثوق سے نہیں کہہ سکتے اُنہیں دوبار قبل ازوقت اقتدار سے الگ کرکے جو سزائیں دی گئیں وہ مال بنانے کے نتیجے میں تھیں، مال تو پاکستان میں بے شمار سیاستدان بنارہے ہیں، غیرسیاسی لوگ جو مال بنارہے ہیں اُس پر بات کرتے ہوئے ویسے ہی ہمارے پرجلتے ہیں، اُن کے حوالے سے ہم مکمل طورپر اندھے، بہرے اور گُونگے ہیں۔ مگر دنیا یہ راز جان چکی ہے پاکستان میں کچھ لوگوں کو سزائیں مال بنانے کی نہیں سراُٹھانے کی مِلتی ہیں، سرجُھکاکر اگر کوئی مال بناتا رہے کس کو بھلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟، غلامی کے طوق کو جیسے ہی کوئی گلے سے اُتارنے کی ہلکی سی کوشش کرے گا پکڑا جائے گا، اور اگر وہ دوبارہ غلامی کا طوق گلے میں ڈال لے، اپنی ”غلطی“ تسلیم کرلے، اپنے مو

 
¿قف سے پیچھے ہٹ جائے، پاﺅں پکڑ لے، معافی مانگ لے، چُھوٹ بھی جائے گا۔ 1999ءمیں شریف برادران کی جدہ روانگی کے بعد ہرکوئی اِس یقین میںمبتلا تھا یہ خاندان اب اقتدار سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے باہر چلے گیا ہے، مجھے لوگوں کے اِس یقین پر ذرا یقین اِس لیے نہیں تھا پاکستان میں اقتدار کا کھیل کھیلنے والوں کی چالوں کو میں اچھی طرح سمجھتا ہوں، پھر پوری دنیا نے دیکھا شریف برادران تیسری بار اقتدار میں آئے، سو آپ دیکھ لیجئے گا وہ چوتھی بار بھی اقتدار میں آئیں گے، بس فرق یہ ہوگا ہربار اُنہیں اقتدار میں لانے کا الزام اسٹیبلشمنٹ پر دیا جاتا تھا اب کے بار وہ اقتدارمیں آئے اُس کا کریڈٹ موجودہ حکمرانوں کی مسلسل نااہلیوں کو دیاجائے گا، ....اصل میں، میں کہنا یہ چاہتا ہوں لُوٹ مار نظرانداز کی جاسکتی ہے سراُٹھانا نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، زرداری صاحب کے ایک قریبی دوست نے ایک بار مجھے بتایا ”زرداری صاحب جب صدر پاکستان تھے اُس وقت کی طاقتور ترین شخصیت سے جب بھی کسی جگہ اُن کی ملاقات ہوتی، سب سے پہلے وہ اُس طاقتور ترین شخصیت سے یہ پوچھتے”اور سنائیں سر“بھائیوں کا کاروبار ” خیر سے ٹھیک چل رہا ہے؟“....زرداری صاحب کے دوست سے ازرہ مذاق میں نے کہا ”جواباً وہ طاقتور ترین شخصیت بھی زرداری صاحب سے پوچھتی ہوگی ”اور سنائیں صدر صاحب آپ کی کمیشن ابھی تک ”ٹین پرسینٹ“ ہی ہے یا اُس میں کوئی کمی بیشی ہوئی ہے؟“۔پاکستان اصل میں ایک ”لُوٹ مارگاہ“ ہے، یہاں لُوٹ مار کو لوگ اپنا ”حق“ سمجھتے ہیں، اِس کے علاوہ بھی بے شمار معاملات ہیں جن کی وجہ سے پاکستان آج تک دنیا میں ایک باوقار مقام حاصل نہیں کرسکا....پاکستانیوں کی پاکستان میں کوئی عزت نہیں باہر کیا ہوگی؟، اِس صورت حال کا ذمہ دارکوئی اور نہیں ہم خود ہیں، ہمارا تماشا کوئی اور نہیں بناتا، ہم خود بناتے ہیں، یہاں ہرادارہ اپنے ہی لوگوں کو گندہ کرنے کی لگن میں مگن ہے .... حتیٰ کہ ہمارے محترم وزیراعظم خان صاحب بھی اکثر اوقات جب بیرون ملک جاتے ہیں پاکستان کی کچھ ایسی خرابیاں بیان فرما دیتے ہیں جو وہاں پہلے سے لوگوں کو معلوم نہیں ہوتیں، اپنے اقتدار کے ابتدائی دنوں میں بیرون ملک لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے اکثر وہ فرماتے ”پاکستان میں بہت کرپشن ہے، پھر اُنہی لوگوں سے گزارش کرتے آئیں پاکستان میں سرمایہ کاری کریں“....لوگوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری پر مائل کرنے کے لیے بنیادی نقطہ اُن کی نظر میں شاید یہ تھا پہلے لوگوں کو بتایا جائے کہ پاکستان میں کتنی کرپشن ہے .... فوج شاید پاکستان کا واحد ادارہ ہے جس سے وابستہ شخصیات اپنے ادارے سے وابستہ کسی فرد پر تنقید کرنے کا یا اُسے گندہ کرنے کا تصور تک نہیں کرتے، شاید اِسی لیے یہ ادارہ اتنا طاقتور ہے اِس کی کچھ خرابیاں بیان کرتے ہوئے بھی سوبار سوچنا پڑتا ہے، جبکہ دوسرے بے شماراداروں کی خرابیاں کسی اور نے کیا بیان کرنی ہوتی ہیں اُن اداروں سے وابستہ لوگ خود اپنے پیٹ سے کپڑا کچھ اِس انداز میں اُٹھاتے ہیں اُن کے ”پاپی پیٹوں“ کے صرف باہر نہیں، اندر جوکچھ ہوتا ہے وہ بھی دکھائی دے رہا ہوتا ہے .... خصوصاً ہمارے سیاستدان جس انداز واہیات میں ایک دوسرے کو ننگا یا گندہ کرتے ہیں، اُس کا نتیجہ یہ نکلا پاکستان میں آج سب سے گندہ ومکروہ جو ادارہ سمجھا جاتا ہے وہ سیاست ہے، ہم کسی اور ادارے سے وابستہ کسی شخصیت پر کوئی گھٹیاالزام اِس قدر آسانی سے نہیں لگاسکتے جس قدر آسانی سے ہم سیاستدانوں پرلگادیتے ہیں، اور سیاستدان اُن الزامات کو برداشت بھی کرلیتے ہیں، .... اب اِس گندگی میں مزید گندگی کا اضافہ یہ ہونے جارہا ہے، یا یوں کہہ لیں اب یہ روایت بننے جارہی ہے کہ عدلیہ سے وابستہ کچھ ریٹائرڈ شخصیات نے عدلیہ کو بدنام کرنے کا سلسلہ آگے بڑھانا شروع کردیا ہے جس کا نوٹس اسلام آباد ہائی کورٹ لے چکی ہے ....بندہ پوچھے جب یہ کام کچھ ” فیصلے“ کررہے ہیں تو عدلیہ سے وابستہ کچھ ریٹائرڈ شخصیات کو اپنے ہی ڈالے ہوئے گند میں مزید اضافہ کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ؟ اُٹھنے والا یہ بنیادی سوال بڑا اہم ہے یہ آواز رانا شمیم نے اُس وقت کیوں نہیں اُٹھائی، یا یہ حلف نامہ اُنہوں نے اُس وقت کیوں نہیں دیا جب نواز شریف کے بخشے ہوئے عہدے پر وہ فائز تھے؟۔....جہاں تک سابق نثار کا تعلق ہے اپنی چیف جسٹسی کے زمانے میں وہ ہرشعبے کو ٹھیک کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہے سوائے اپنے شعبے کے ....جتنی توجہ اُنہوں نے دوسروں کے چھابے میں ہاتھ مارنے پر دی اُس سے آدھی توجہ وہ اپنے چھابے میں ہاتھ مارنے پر دے لیتے۔ یا اپنی منجھی تھلے ڈانگ پھیر لیتے رانا شمیم کے بیان حلفی کو ایک شخص بھی درست تسلیم نہ کرتا، بے شمار معاملات میں سابق نثار کا کردار پہلے ہی عیاں تھا تو اللہ جانے رانا شمیم کو مزید پردے چاک کرنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ؟.... اب یہ دیکھنا عدلیہ کا کام ہے یہ کام اُنہوں نے مفت میں کیا یا مفت میں نہیں کیا ؟؟؟