پنجاب کے انتظامی حالات اور چیف سیکرٹری

پنجاب کے انتظامی حالات اور چیف سیکرٹری

قیام پاکستان کے فوری بعد ملکی بیوروکریسی نے بھر پور جذبہ حب الوطنی سے ملکی معاملات بہترین انداز سے چلائے،خاص طور پر لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد ملک سیاسی خلفشار،بے چینی،افراتفری سے دوچار تھا بلکہ کہا جائے کہ سیاسی انارکی کا شکار تھا تو غلط نہ ہو گا،لیکن بیوروکریسی نے بدترین حالات میں بہترین کارکردگی دکھائی اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا،ایوب دور میں زرعی اصلاحات،صنعتی انقلاب کی بنیاد بھی بیوروکریسی کی مرہوم منت ہے،اسی دور میں حقیقی ترقی کی بنیاد ڈالی گئی،بعد میں آنے والی جمہوری اور غیر جمہوری حکومتوں نے صرف اس شاندارآغاز کوتنزلی اور انحطاط سے دوچار کیا بلکہ بیوروکریسی کے تارو پود بھی ادھیڑ کر رکھ دئیے۔

آج پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں بیورو کریسی کا حال بہتر ہے ، مثالی نہیں، پنجاب کے موجودہ چیف سیکرٹری ڈاکٹر کامران افضل کے آنے سے امید کی جا رہی تھی انتظامی ،مالی اور بیوروکریٹک معاملات بہتر اور تیز ترین ٹریک پر چلنا شروع ہو جائیں گے مگر محسوس ہو رہا ہے کہ معاملات ابھی بھی سست روی کا شکار ہیں،خصوصی طور پر فیلڈ میں جہاں ایکٹر قسم کے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر ہیں ۔پنجاب میں ترقیاتی محاذ بہتر ہے اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اس حوالے سے پنجاب کے تمام اضلاع اور علاقوں میں تیزی سے کام کرتے دکھائی دے رہے ہیں وہ اپنے اتحادیوں اور ارکان اسمبلی کو بھی ساتھ لے کر چل رہے ہیں ، جب سے عامر جان ان کے پرنسپل سیکرٹری بنے ہیں ایوان وزیر اعلیٰ بہت زیادہ متحرک ہے جو اچھی بات ہے ،لاہور سمیت تمام علاقوں میں ترقیاتی کام ہوتے دکھائی بھی دے رہے ہیں مگر مہنگائی اور چور بازاری نے ان کے تمام کاموں پر پانی پھیر رکھا ہے ،اس مرحلے پر اگر اضلاع کی انتظامیہ کو ایکٹو کیا جائے تو مہنگائی اور چور بازاری کے عفریت پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ موجودہ چیف سیکرٹری کو پنجاب کے ایک سابق چیف سیکرٹری اور موجودہ محتسب پنجاب میجر اعظم سلیمان جیسا کردار ادا کرنا ہوگا ، وہ ایک سخت گیر افسر تھے اور پنجاب کے معاملات کو بہت بہتر سمجھتے تھے ،ڈاکٹر کامران کو میجر اعظم کے تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہئے ، تبھی وہ پنجاب کی بیوروکریسی پر قابو پا کر اس سے کام لے سکیں گے۔اسی طرح پنجاب میں اب تک میری نظر میں جو بہترین اور کامیاب چیف سیکرٹری رہے ہیں وہ ناصر محمود کھوسہ ہیں،ڈاکٹر کامران کو ان سے ضرور رہنمائی لینی چاہئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چیف سیکرٹری ڈاکٹر کامران افضل ایک انتہائی نستعلیق،محنتی ،ایماندار افسر ہیں ،مالی ڈسپلن اور معاملات انہیں از بر ہیں ، مگر وہ پنجاب میں زیادہ عرصہ تعیناتی کا تجربہ نہیں رکھتے ، اسی طرح وہ فرینڈلی اور داد رسی کرنے والے بھی ہیں ،وہ پانچ سال تک ایوان وزیر اعظم میں بھی کام کر چکے ہیں اس لئے وہ ایک سخت گیر منتظم بننے کے بجائے افسروں کو ضرورت سے زیادہ اوبلائج کرنے کے عادی بن چکے ہیں ،اسی وجہ سے پنجاب کے اکثر کلاکار قسم کے افسران ان سے مرضی کے کام کروا لیتے ہیں۔انہیں چاہئے کہ وہ سیکرٹریوں ،ڈپٹی کمشنروں اور اسسٹنٹ کمشنروں کی لمبی لمبی میٹنگز کے بجائے مانیٹرنگ اور کارکردگی کے لئے نہ صرف سخت ہدایات دیں بلکہ خود بھی کڑی نظر رکھیں اور مثبت نتائج حاصل کریں۔ان کے پاس،سینئر ممبر بورڈ اف ریونیو ،چیئر مین پی اینڈ ڈی ، ایڈیشنل چیف سیکرٹری، سیکرٹری خزانہ ، سیکرٹری سروسز، سیکرٹری آئی اینڈ سی کی صورت میں بہترین ٹیم موجود ہے ،انکے بیج میٹز سیکرٹریز بھی محنتی افسر ہیں، آبپاشی ،مواصلات و تعمیرات ،زراعت ، انڈسٹری،ہیلتھ ،اچھے جا رہے ہیں۔ان سب کو ان کے محکموں میں متحرک کریں اور ڈویژن و اضلاع کی انتظامیہ کو مہنگائی اور چور بازاری سے نمٹنے کا ٹاسک دے کر نتائج لیں۔

 پنجاب کی ایک حکومتی رپورٹ کے مطابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار جو اقتدار سنبھالنے کے بعد سے آج تک بیوروکریسی کی کپڑ چھان کر رہے ہیں ان کے اپنے ضلع میں کمشنر کی کارکردگی انتہائی خراب رہی، صوبائی دارالحکومت کے اسسٹنٹ کمشنروں کی دس درجہ تنزلی ہوئی، جہلم، قصور، لیہ، چنیوٹ، چکوال، راجن پور، اٹک، سیالکوٹ، میانوالی کے اسسٹنٹ کمشنرز کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی،کمشنر ساہیوال علی بہادر قاضی کارکردگی کے لحاظ سے بہترین قرار دئیے گئے، فیصل آباد دوسرے،سرگودھا تیسرے ،راولپنڈی چوتھے، بہاولپور پانچویں،گوجرانوالہ چھٹے، لاہور ساتویں ، ملتان آٹھویں جبکہ ڈی جی خان کے کمشنر کارکردگی کے حوالے سے نویں نمبر پر رہے، اسسٹنٹ کمشنرز کی کارکردگی رپورٹ میں بہاولنگر پہلے،فیصل آباد سمندری دوسرے ،فیصل آباد تاندلیانوالہ تیسرے،ساہیوال سٹی چوتھے، فیصل آباصدر پانچویں ، بھکر دریا خان چھٹے،اوکاڑہ رینالہ خورد ساتویں،بھکر آٹھویں ،بہاولپور خیر پور نویں اور بہاولپور سٹی کے اسسٹنٹ کمشنر کارکردگی فہرست میں دسویں نمبر پر ہیں،لیہ،پتوکی، سوہاوہ کے اسسٹنٹ کمشنر اس فہرست میں آخری نمبر پر ہیں۔ موجودہ کمشنر ملتان نے اس ڈویژن کو بھی تنزلی میں وہاں پہنچا دیا ہے جہاں وہ ڈی جی خان کو لے گئے تھے ماضی میں جاوید اختر محمود نے کمشنر ملتان کے طور پر یہاں بڑا اچھا کام کیا تھا جسکی وجہ سے اب تک سینئر ممبر بورڈآف ریونیو ان کے معترف ہیں۔

 گزشتہ سال پنجاب میں بیوروکریسی کی کاردگی کا جائزہ لینے کیلئے صوبائی وزراءپر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دی گئی تھیں،ان کمیٹیوں کو محکمانہ کارکردگی کا جائزہ لینے کا ٹاسک دیا گیا تھا،بہترین سروس ڈیلیوری کا بھی کمیٹیوں نے جائزہ لینا تھا، ان کا بھی پتہ کرنا ہو گا ،ہر کسی کو ڈیلیور کرنا ہو گا،ضلع اور تحصیل کی سطح سے نتائج آنا چاہیے تب ہی پنجاب ایک بار پھر مثالی صوبہ بن سکے گا۔ چیف سیکرٹری ڈاکٹر کامران کو چاہئے کہ وہ پنجاب جیسے بڑے صوبے میں روزانہ اور ڈنگ ٹپاو

 
¿ بنیادوں پر انتظامی معاملات حل کرنے کے بجائے کو ئی اصلاحاتی کام کریں تا کہ پنجاب میں مستقل بنیادوں پر انتظامی یارڈ سٹک قائم ہو سکیں۔ مرکز میں تو حکومتی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے کئی سال سے اصلاحات پر کام ہو رہا ہے،سابق سیکرٹری خزانہ اور فیڈرل پبلک کمیشن کے رکن عبدالوحید رانا نے 2019ءمیں پیش کئے گئے اپنے ریسرچ پیپر میں ”سول سروسز ریفارمز ان پاکستان“ میں لکھا 2018ءکے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان ورلڈ بینک کے گورنس انڈیکیٹرز میں دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں کی فہرست میں اصلاحات کے ضمن میں سب سے آخر میں ہے،جبکہ طرز حکمرانی بہتر بنانے کیلئے سب سے اہم بیوروکریسی ہوتی ہے،ان کے مطابق دیگر ممالک کی نسبت پاکستان کی بیوروکریسی میں اصلاحات کا عمل سست اور تاخیر کا شکار رہا جبکہ اس حوالے سے 2006ءمیں قومی کمیشن برائے حکومتی اصلاحات قائم کیا جا چکا تھا،ان کے مطابق طاقت کا عدم توازن حد سے زیادہ مرکزیت رکھنے والے ادارے بیوروکریسی اور کمزور جمہوری ادارے اس کی وجہ ہیں،بعض غیر ریاستی عناصر کی جانب سے ریاستی فرائض کی انجام دہی،ضرورت سے زیادہ اور غیر ہنر مند افراد کی بھرتی،نو آبادیاتی قوانین،سیاسی مداخلت،شفافیت کی کمی،احتساب کا کمزور نظام،اصلاحات کی مزاحمت اس کی بڑی وجوہات ہیں۔ موجودہ چیف سیکرٹری اگر پنجاب کے سابق چیف سیکرٹریوں کے مشورے سے کوئی اصلاحاتی کام کر جائیں تو یہ ایک بڑا کام ہو گا جو یاد رکھا جائے گا۔