”مرکز وُجود“

”مرکز وُجود“

قارئین کرام، اگرآپ مجھے اجازت دیں، تو اس دورنفسانفسی میں الجھنے کی بجائے میں طنزومزاح کی تحریریں لکھ کر آپ کے منہ پہ آئی مسکراہٹوں کو صدقہ جاریہ سمجھوں، تو پھر سنیے، ماضی قریب کی عید قرباں سے پہلے یہ جانچنے کیلئے اس دفعہ جانوروں اور خصوصاً بکروں کے نرخ کیا ہوں گے، اور مہنگائی کا فارمولا یعنی تیل کی قیمت کا اتارچڑھاﺅ کس حدتک بکروں کی قیمتوں پر بھی اثرانداز ہوتا ہے، ہم نے بکرے خریدنے سے پہلے بکرے کی سری خریدنے کا قصد کیا اور قصائی کی دکان پہ جاکر ایک بڑی سری کا انتخاب کرتے ہوئے پوچھا کہ بھائی صاحب اس سری کی قیمت کیا ہے؟ وہ کمال ”حکمرانی“ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے کام میں مگن رہ کر بغیر اوپر دیکھے، اور نوٹوں کی گٹھیاں گنتے ہوئے بولا، بھائی صاحب آپ کی خاطر بس صرف ساڑھے چھ سو روپے، مجھے نہ تو اپنی سماعتوں پہ یقین آیا، اور نہ ہی اس کی بات پہ لہٰذا میں نے دوبارہ مودبانہ عرض کی، اور اُس کی چھریوں سے چند قدم پیچھے کھڑے ہوکر کہا بڑے بھائی میں نے تمہارے سرکی نہیں، بکرے کے سرکی قیمت پوچھی ہے، قصائی نے بھرپور قہقہہ لگاکر کمال بے اعتنائی کا مظاہرہ کیا، غالباً اس نے میری شخصیت، اور آنکھوں پہ لگی عینک سے متاثر ہوئے بغیر کہا، جناب میں تو آپ کو ایک پڑھا لکھا انسان سمجھا تھا، کیا آپ کو یہ نہیں معلوم، کہ ہمارے ملک میں تو انسان کے سرکی کوئی قیمت ہی نہیں ہے، کیا آپ ہرروز ہرچینل پر جن انسانوں کو آپ قیمتی سمجھتے ہیں، ان کی تذلیل بعض اوقات تو فردوس عاشق اعوان اور کئی دفعہ ایک دوسرے وزیر کے ہاتھوں، بلکہ اب تو انسانوں کے سروں کو زمین پہ رلتے نہیں دیکھا، مرنے کی صورت میں ان انسانوں کی قیمت زیادہ سے زیادہ حکومت کتنے لاکھ مقرر کرکے ان کے وارثین کو دیتی ہے؟ محض چند لاکھ جبکہ عید پر بکروں، بیلوں اور گائیوں کی قیمت لاکھوں سے بھی تجاوز کرکے کروڑتک جاپہنچی ہے، اور کیا آپ یہ نہیں جانتے ، کہ ایک سابقہ حکومت نے تو اپنے دورحکومت میں کسی جنس یا صنعت یا ٹیکسٹائل کی اشیاءبرآمد کے بجائے انسانوں کو بیچ کر باہر برآمد کرنا شروع کردیا تھا حتیٰ کہ ایک آپ جیسی پڑھی لکھی اور سلجھی ہوئی خاندانی لڑکی کی قیمت چارسو ڈالر لگائی تھی۔

ویسے آپ بُرا نہ مانیں، کیونکہ یہ آپس کی بات ہے، کہ آپ ہرحکومت کی بہترین کارکردگی کو دل سے داد دیں، کہ کیا دنیا کے کسی اور ملک میں ممکن ہے، جو حکمرانوں نے کرکے دکھایا ہے، ہمارے ملک میں جانور مہنگے، اور انسان سستے ہیں، خیر انسانوں کی خریدوفروخت حکومت کے علاوہ عوام میں بھی بہت مقبول ہے، سندھ سے لے کر بلوچستان، پنجاب اور سکردو میں ہرجگہ عورتیں مرد اور بچے جاہلیت کی یاد تازہ کرتے نظرآتے ہیں یہاں پر ایک تاجر اور صاحب استطاعت شخص، نوکرانیاں بھٹوں پہ مزدور، ہوٹلوں کے لیے بیرے، حتیٰ کہ بعض اوقات تو بیویاں بھی خرید لیتا ہے بلکہ آج کل تو یہ کمال ہوا ہے کہ آپ کہتے ہیں، حکمران قیمتوں پہ کنٹرول نہیں کرتے اور ہرچیز مہنگی ہوگئی ہے، مگر شاید یہ بھی ناانصافی ہے کہ ہم اس کارکردگی کو نہیں سراہتے، کہ آج کل مائیں اور والدین اور اپنی بچیوں اور بیٹوں کو انتہائی کم قیمت پہ بیچنے کے لیے نہ صرف اشتہار لگاتے ہیں، بلکہ پارلیمنٹ ہاﺅس کے باہر لوگ بچوں کو بیچنے کے لیے آوازے نکالتے نظر آتے ہیں۔ کیا ایسے ہوتا ہے، افریقہ کے جاہل ملکوں میں، وہاں کبھی ایسے اشتہار کسی نے دیکھے ہیں؟ ہماری تو پوری قوم قصائی بن چکی ہے، قصائی بولا، بھائی صاحب، میں نے اپنی حلال چیز کی زیادہ قیمت مانگی ہے، تو آپ آپے سے باہر ہوگئے ہیں، حالانکہ میری شرافت، اور میری ایمانداری کے تو سارے گاہک قائل ہیں، کیونکہ نہ تو میں حلال کے بجائے حرام بیچتاہوں، اور نہ ہی بکروں کے جسموں میں ہوا اور پانی بھرتا ہوں، اور نہ ہی میں کسی اور جانور کے جسم پہ بکرے کی دُم لگاتا ہوں، بلکہ غیرمسلم لوگ عیدوں پر ہم سے بکرے ذبح کرنے کی چیزیں خرید کر اور صرف اللہ اکبر بولنا سیکھ کر آپ لوگوں کی قربانی کو مشکوک بناکر آپ کو بے وقوف بناجاتے ہیں، مگر آپ پھر بھی خاموش رہتے ہیں، قدم قدم پر اگر حکومت قصائی کا کردار ادا کرے نہانے سے دفنانے تک قیمتیں بڑھا کر آپ کوچھٹی کا دودھ یاد دلادے بلوں کی مد میں چاہے، آپ کی کھال ہی کھینچ کر وہ ہمارا کردار ادا کرے، آپ جیسے بے حس خودکشی تو کرلیتے ہیں، مگر اپنی سٹی گم کرالیتے ہیں، لیکن رہتے خاموش ہیں۔

مگر یہاں اسلامی جمہوری مملکت میں تو یوم آزادی پہ منٹوپارک میں ”آزادی جن وانس“ پہ رقص بسمل نہیں رقص ابلیس پیش کیا جاتا ہے، مگر ہم ہیں ، کہ ہروقت اور ہرمسئلے پر اپنے ہمسائے ملک کی مثالیں دیتے ہیں ، کیا کسی بھی ملک میں کرونا، اللہ تعالیٰ کے بجائے نعوذ بااللہ کسی حکمران کی حکمت عملی سے دورہوا ہے، کیا جن ملکوں میں سرے سے ہواہی نہیں مثلاً NAURU TUVALU، جنوبی کوریا اور ترکی، یہ کس کا کمال ہے، قارئین آپ کا کیا خیال ہے۔