کسی کی توقع پر کوئی آرڈر جاری نہیں کریں گے، امید ہے عمران خان کے وکیل درست رسپانڈ کریں گے: چیف جسٹس 

کسی کی توقع پر کوئی آرڈر جاری نہیں کریں گے، امید ہے عمران خان کے وکیل درست رسپانڈ کریں گے: چیف جسٹس 
سورس: File

اسلام آباد: عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ ہم کوئی بھی آرڈر کسی بھی توقع پر جاری نہیں کرسکتے ۔ سپریم کورٹ اپنا یہ دائرہ اختیار خیال سے استعمال کرتی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں عمران خان کے وکیل عدالت میں درست ریسپانڈ کرینگے۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لاجر بینچ سماعت کر رہا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن،جسٹس منیب اختر ، جسٹس مظاہر اکبر نقوی اور جسٹس یحییٰ آفریدی بنچ میں شامل ہیں۔ حکومتی وکیل سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ عمران خان کے جواب پر وزارت داخلہ نے جواب داخل کیا ہے ۔متفرق جواب کے ساتھ یو ایس بی بھی جمع کروائی ہے۔

حکومتی وکیل نے کہا کہ متفرق جواب کی کاپی عمران خان کے وکیل کو بھی فراہم کی ہے۔ عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ  مجھے یو ایس بی نہیں ملی۔ سلمان بٹ نے کہا کہ یو ایس بی سے ثابت ہوتا ہے لانگ مارچ کا ہدف ڈی چوک جانا تھا۔یو ایس بی جمع کروائی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے موبائل سروس بند نہیں تھی۔ لانگ مارچ کے کنٹینر سے تواتر سے سوشل میڈیا پر ٹیوٹس اور پوسٹس ہوتی رہیں ۔

اس پر جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ اگر یو ایس بی کی دوسری سائیڈ نے تردید کر دی ۔ پلیز شواہد سے متعلق قانون کو پڑھیں ۔ حکومتی وکیل سلمان بٹ نے کہا کہ بے شک تردید کر دیں ۔ان کے اپنے اکاؤنٹ سے ٹویٹس ہوتی رہی ہیں ۔ 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مقدمہ کے کچھ حقائق ہیں۔ جیمر سے متعلق آپ نے وضاحت کی ہے ۔ آپ کہہ رہے ہیں جمیرز نہیں تھے ۔عمران خان اور دیگر نے جواب جمع کروایا ہے ۔عدالت، توہین عدالت کے اختیار کے استعمال میں محتاط ہے۔ بلکل اسی طرح سپریم کورٹ اس بارے میں بھی محتاط ہے کہ ہمارے احکامات کی خلاف ورزی نہ ہو ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی دلیل ہے کہ عدالتی حکم نامہ میڈیا اور پھر سوشل میڈیا کے ذریعے پورے ملک تک پھیل چکا تھا۔ مجھے یاد ہے ہم نے آئی جی کو طلب کیا۔آئی جی نے کہا وقت کم ہے ہم سیکورٹی فراہم کرنے کی یقین دہانی نہیں کروا سکتے۔ 

سلمان اسلم بٹ کا کہنا تھا کہ یو ایس بی جمع کروائی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے موبائل سروس بند نہیں تھی۔ عمران خان کے وکیل نے جواب جمع کرانے کیلئے مہلت مانگ لی جس پر عدالت نے سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کردی۔ 

مصنف کے بارے میں