امریکی صدر کا بیان: حقیقت یا دھمکی!

امریکی صدر کا بیان: حقیقت یا دھمکی!

امریکا اس وقت 2درجن سے زائد ممالک کے ساتھ بیک وقت جنگ کی پوزیشن میں ہے، کسی ملک کے ساتھ سرد جنگ جبکہ کسی کے ساتھ روایتی جنگ میں مصروف ہے۔ اس کے بڑے حریفوں میں سب سے آگے روس پھر چین، ایران وغیرہ ہیں۔ اس لیے وہ اکثر اپنے مخالفین کے خلاف اور کبھی کبھار اپنے اتحادی ممالک کے خلاف بھی بیان داغ رہاہوتا ہے جیسے امریکی صدر جوبائیڈن نے ڈیموکریٹک کانگریس کے اجلاس سے خطاب میں بدلتی ہوئی عالمی جغرافیائی سیاسی صورت حال پر گفتگو کے دوران پاکستان کے جوہری پروگرام کو غیر منظم قرار دیتے ہوئے اس خیال کا اظہار کیا کہ پاکستان شاید دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں سے ایک ہے۔صدر بائیڈن کی اس بدگمانی کے سراسر بے بنیاد ہونے کے ایسے مضبوط ثبوت و شواہد موجود ہیں کہ پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں اس بیان پر حیرت کا اظہار کیا جارہا ہے۔ مبصرین کے مطابق یہ ایک سیاسی بیان ہے جس کا مقصد نومبر میں ہونے والے مڈٹرم انتخابات میں بعض حلقوں کی حمایت حاصل کرنا ہے۔ 
لیکن کیا ہم واقعی خطرناک ملک ہیں اس حوالے سے دنیا جانتی ہے کہ ہمارے ایٹمی اثاثے محفوظ ترین ہاتھوں میں ہے، اور اس کی تعریف دنیا کے بڑے بڑے سکیورٹی ادارے بھی کر چکے ہیں۔ مگر سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قسم کے بیان سے کیا پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں کوئی فرق پڑے گا تو میرے خیال میں ایسی ضرورت محسوس نہیں ہوگی۔ کیوں کہ اگر بادی النظر میں پاکستان کو جتنی ضرورت امریکا کی پڑتی ہے، اتنی یا اْس سے زیادہ امریکا کو بھی پاکستان کی ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ جیسے افغان جنگ کے معاملات زیادہ تر وہ پاکستان میں ہی حل کرتا ہے، پھر دہشت گردی کے خلاف اہم ترین رکن ہونے کی وجہ سے امریکا جب چاہے پاکستان کے ساتھ کسی بھی قسم کے معاہدے کرنے کی پوزیشن میں رہتا ہے۔ 
اور ویسے بھی اگر کسی ملک کے جوہری پروگرام پر سوال اٹھناچاہیے تو وہ بھارت ہے۔ کیونکہ بھارت کی نیوکلیئر سکیورٹی کا حال یہ ہے کہ اسی سال مارچ کے مہینے میں بھارت کا جوہری 
ہتھیار لے جانے کی اہلیت رکھنے والا ایک میزائل پاکستان میں آگرا جسے بھارتی حکام نے اپنے سسٹم کی غلطی قرار دیا جبکہ پچھلے برسوں میں بھارت میں جوہری مواد کی چوری کے واقعات تواتر سے رونما ہوتے رہے ہیں لیکن امریکی حکام کی جانب سے پہلے کبھی اس پر کسی تشویش کا اظہار منظر عام پر آیا اور نہ صدر بائیڈن نے اپنے حالیہ خطاب میں اس کی ضرورت محسوس کی۔ لہٰذا یہ گمان وزن رکھتا ہے کہ امریکی صدر نے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے غیر منظم ہونے کی بات پاکستان کے چین کے علاوہ اب روس سے بھی بڑھتے ہوئے روابط کی بنا پر ایک تنبیہ کے طور پر کی ہو تاہم امریکی انتظامیہ پر واضح ہونا چاہیے کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کی ترجیحات طے کرنے میں آزاد ہے اور امریکہ سمیت کسی بھی ملک کو اس معاملے میں مداخلت کا حق حاصل نہیں۔ 
ہاں البتہ آپ کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا پورا حق ہے۔ کیوں کہ ویسے بھی امریکا ”بہادر“ ہے۔ مطلب! امریکا آج بھی سپر پاور ہے، کل بھی تھا اور کم از کم اگلے 30,35سال تک رہے گا، اس لیے اْس کے ساتھ بگاڑ پیدا کرنے کا فائدہ نہیں، ہاں! یورپ کی طرح آپ کی حکمت عملی ایسی ہونی چاہیے کہ آپ ذاتی سطح پر فائدے لینے کے بجائے قومی سطح پر اْس سے فنانشل فائدے لے کر اپنی معیشت کو بہتر بنائیں۔ اس کے لیے آپ کو خود کو بھی اْس سطح پر تو نہیں مگر کم از کم اپنے ہمسایہ ممالک کی سطح تک تو لے آئیں۔ تبھی امریکا بات بھی سنے گا، اور اعلیٰ سطح پر مذاکرات بھی کرے گا۔اور پھر آپ یہ بات لکھ لیں کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں توازن اور وقار قائم کرنا ہر حکمران اور پاکستانی کی خواہش رہی ہے۔لیکن امریکا کا آپ کے ساتھ رویہ کیسا رہتا ہے، یہ صرف وہی جانتا ہے۔ پاک امریکہ دوستی کے معمار جنرل ایوب خان نے تنگ آکر:Friends not Masters کے عنوان سے کتاب لکھی۔ جنرل ایوب نے کتاب میں رونا رویا کہ امریکہ برابری کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنے کے بجائے دھونس جماتاہے۔با الفاظ دیگر پاکستان کے قومی مفادات اور عوامی جذبات کو سمجھنے کی کوشش کرتاہے اور نہ ان کی پروا کرتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف، آصف علی زرداری اور نوازشریف کے دور میں جس تحقیر آمیز لب ولہجے میں امریکی حکام ہدایات جاری کیا کرتے تھے انہوں نے پاکستانیوں کو بہت رنجیدہ کیا۔
افغانستان کی جنگ میں پاکستان کا بے پناہ جانی اور مالی نقصان ہوا لیکن امریکی حکام صرف اپنے مفادات کی تکمیل پراصرار کرتے رہے۔ بھول کون سکتاہے کہ تسلسل کے ساتھ ”ڈو مور“ کا مطالبہ کیا جاتاتھا۔ پاکستانی حکام کو دورغ گو اور پیسہ کے پجاری قراردیاجاتا۔ انہیں طعنہ دیاجاتاکہ وہ افغانستان میں دوہراکھیل کھیل رہے ہیں۔ امریکہ سے پیسہ بھی ا ینٹھ رہے ہیں اور ڈیلیور بھی نہیں کررہے۔ 
اس کے علاوہ امریکیوں کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ وہ ہمارے حکمرانوں سے ”برابری“ کی سطح پر ملنے کے بجائے ہمارے معاملات سیکرٹری لیول کے امریکی بیوروکریٹ دیکھتے ہیں۔ امریکی حکام ایسے کسی پروٹوکول کے عادی نہیں!چند برس قبل سابق امریکی سفارت کار Dennis Kux کی پاکستان امریکہ تعلقات کے حوالے سے ایک دلچسپ کتاب The United States and Pakistan: 1947-2000 کے عنوان سے چھپی۔ مصنف کے بقول امریکی سفارت خانے کی تقریبات میں اعلیٰ پاکستانی حکام کی شرکت معمول کی بات تھی۔ وزیراعظم لیاقت علی خان تو سفارت کے تھرڈ سیکرٹری کے استقبالیہ میں بھی آجاتے تھے۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے جنہوں نے پاکستانی وزارت خارجہ اور حکومت کو غیر ملکیوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں ایک ضابط کا پابندکیا جس کی انہیں قیمت چکانا پڑی۔ بقول شاعر 
رسوا ہوئے ذلیل ہوئے در بدر ہوئے 
حق بات لب پہ آئی تو ہم بے ہنر ہوئے 
بہرکیف ہمیں اپنے آپ کو اور اپنی معیشت کو بہتر کرکے سب سے پہلے اپنے آپ کو منوانا پڑے گا۔ پھر شکوہ شکایات کرنا پڑیں گی کہ امریکا جب چاہتا ہے ہماری تذلیل کر دیتا ہے اور جب چاہتا ہے ہمارے خلاف بیان داغ دیتا ہے۔ اس کا سدباب صرف اور صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو منوانا پڑے گا!

مصنف کے بارے میں