کیا عمران خان دودھ اور شہد کی نہریں بہا سکتے ہیں

کیا عمران خان دودھ اور شہد کی نہریں بہا سکتے ہیں

بلاشبہ اس وقت عمران خان کی مقبولیت کا طوطی بول رہا ہے وہ جدھر بھی جلسے کرتے ہیں، ان میں لوگوں کا تانتا بندھ جاتا ہے اور وہ اپنے جوش و جذبے کا اظہار بھر پور طور سے کرتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوا یا ہو رہا ہے کہ عمران خان کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا ہے جس کا عوام کی اکثریت کو رنج ہے لہٰذا وہ دیوانہ وار ان کے پیچھے چل پڑے ہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہیں یہ کیسے یقین ہے کہ وہ اگر دوبارہ اقتدار میں آتے ہیں تو ان کے خوابوں کی تکمیل کر سکیں گے؟ 
سچ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کسی منشور کے تحت عوام میں مقبول نہیں ہوئی اسے لوگوں نے اپنے کندھوں پے جذباتی صورت حالات کی بنا پر اٹھایا ہے اور یہ ان کی سخت غلطی ہے کیونکہ جب وہ انہیں ایسے تیسے اقتدار دلوا بھی دیتے ہیں تو وہ کوئی خاص پروگرام نہ رکھنے کی صورت میں کچھ نہ دے پائے گی۔ اگر یہ بات غلط ہے تو ابھی تک عمران خان چیئرمین پی ٹی آئی نے کیوں وہ نعرے نہیں لگائے جو عوامی مفاد میں ہیں۔ کیوں وہ اپنا منشور سامنے نہیں لا رہے جس میں عوام کو روشن مستقبل کی جھلک دکھائی دیتی ہو لہٰذا یہ کہنا غیر مناسب نہ ہو گا کہ پی ٹی آئی بھی ایک روایتی سیاسی جماعت ہے جو عوامی نہیں غیر عوامی ہے کیونکہ اس کو اب تک ان لوگوں نے اپنے حصار میں لے رکھا ہے جو کسی بڑی تبدیلی کے حق میں نہیں انہیں موجودہ نظام میں ہی اپنی بہتری و بقا نظر آتی ہے ان کی جائیدادیں ان کے کارخانے ان کی فیکٹریاں ان کے پلازے ان کی رہائشی سکیمیں اور ٹھیکے اسی نظام میں محفوظ رہتے ہیں لہٰذا وہ کسی صورت عمران خان کو ”سٹیٹس کو“ کے خلاف قدم نہیں اٹھانے دیں گے۔ اب تو بعض دانشوروں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ پی ٹی آئی اس عوامی ابھارکو اور اوپر لے جا کر نیچے لے آنے والی ہے کیونکہ اسے یہ اندیشہ لاحق ہو گیا ہے کہ کہیں  عوام ایوانوں میں جانے کا مطالبہ نہ کر دیں  خیر اب کی بار پی ٹی آئی اقتدار میں آتی ہے تو عوام یہ توقع کر رہے ہوں گے  کہ ان کے لیے خوشحالی کے در وا ہو جائیں گے۔ ایسا اس وقت ہو گا جب وہ خود پارلیمنٹ کا حصہ بنیں گے یہ پیسے والے یہ جاگیروں والے کبھی نظام مساوات نہیں لائیں گے جس میں عوام کو بنیادی حقوق حاصل ہوتے ہوں روٹی کپڑا اور مکان میسر آتے ہوں تعلیم و صحت کی سہولتیں بلا تفریق ملتی ہوں انہیں یہ سب قابل قبول نہیں لہٰذا جب تک روایتی چلے ہوئے کارتوس پی ٹی آئی میں بیٹھے ہیں عوام کی کوئی حیثیت نہیں۔ اس کے 
کارکنوں کی بھی کوئی وقعت نہیں وہ دھکے کھاتے پھرتے ہیں اپنے سیاسی حریفوں سے بحث مباحثے کرتے ہیں مگر انہیں  پی ٹی آئی کے طاقتور لوگ کوئی اہمیت نہیں دیتے عمران خان کو بھی کھوتے گھوڑے کی پہچان  نہیں ان کا میڈیا سیل بھی آنکھوں پر پٹی باندھے بیٹھا ہے اسے کھرا کھوٹا ایک ہی نظر آتے ہیں   لہٰذا جو دکھائی دے رہا ہے وہ عوامی مفاد کے لیے بہت کم بڑی شخصیات کو زیادہ  اس کا فائدہ پہنچے گا۔ 
پچھلے ساڑھے تین برس میں بھی انہوں نے ہی فائدے حاصل کیے ہیں۔ کروڑوں نہیں اربوں کمائے ہیں۔ یہ جو پنجاب کے وزیراعلیٰ ہو گزرے ہیں انہوں نے جو اس صوبے کا حشر کیا ہے اس سے سبھی واقف ہیں ان کے دور حکومت میں رشوت کے دام تگنے چوگنے ہو گئے تھے۔ سفارش بھی چلتی تھی۔ مہنگائی نے بھی عام آدمی کو پریشان کیا۔ کمیشن خوری گھپلے اور زمینوں پر قبضے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں لہٰذا ان سے امید وفا نہیں انہوں نے بھی وہی کرنا ہے جو ان سے پہلے والے کرتے رہے ہیں۔ ہمارا مشورہ ہے کہ خواہ مخواہ ان وڈیرا نما عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی خاطر اپنے عزیزوں دوستوں اور رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات خراب مت کیجیے وہ سماجی زندگی میں آپ کے ہر غم اور خوشی میں شریک ہو کر آپ کو حوصلہ دیتے ہیں۔ آگے بڑھنے کی ہمت دیتے ہیں لہٰذا ان سے دور ہونا اور سیاستدانوں کے لیے ان سے منہ پھیرنا درست نہیں کیونکہ سیاستدان جو اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں ایک ہوتے ہیں ان کے مفادات بھی ایک ہیں لہٰذا آپس میں الجھئے نہیں۔ 
بس اختلاف رائے ضرور کیجیے۔ ویسے ہم یہ  عرض کر دیں کہ اس کا بھی کچھ  فائدہ نہیں موجودہ نظام کے ہوتے ہوئے عام آدمی کو، کیونکہ اس میں حکمرانوں کے بھی بس میں نہیں ہے کہ وہ جو چاہتے ہیں اس پر من و عن عمل درآمد کر سکیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم قرضوں پے پل رہے ہیں اور قرضے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک دیتے ہیں انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ کوئی کیسے جی رہا ہے انہیں اپنا سرمایہ سود سمیت واپس چاہیے ہوتا ہے سو آج تک ہم مقروض ہیں یہ قرضے ہمارے سر سے اترنے کا نام ہی نہیں لے رہے بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں جس سے عوام پر ناقابل برداشت دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ اس وقت انہیں اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ مہنگائی نے گویا ان سے زندگی کا ہر رنگ چھین لیا ہے وہ  ہچکولے کھاتے پھر رہے ہیں مگر مجال ہے حکمران ان کی اس حالت پے ایک سرسری سی نگاہ بھی ڈال لیں وہ آنکھیں موندھے اپنے آشیر بادیوں کے ہر فیصلے، ہر پروگرام پر عمل کرتے چلے جا رہے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس طرز عمل و طرزحکمرانی کے نتائج مثبت برآمد نہیں ہوں گے مگر پھر بھی چلتے جا رہے ہیں اور عوام ہیں کہ ان میں غم و غصے کی لہر بلند سے بلند ہوتی جا رہی ہے جو پی ٹی آئی کے لیے بڑی مفید ثابت ہو رہی ہے مگر اسے اقتدار کے حصول کے لیے ہی استعمال میں لا سکتی ہے۔ کرنا کرانا اس نے بھی کچھ  نہیں۔ 
بہرحال عمران خان نے اگر صورت حالات کو نظر انداز کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہا تووہ بہت جلد غیر مقبول ہو جائیں گے انہیں یہی لوگ کوس رہے ہوں گے اور  وہ پچھتا رہے ہوں گے کہ انہوں نے کیوں خوش فہمیوں میں مبتلا ہو کر اپنا قیمتی وقت ضائع کیا اپنوں بیگانوں سے رخ پھیرا اور اپنی نجی زندگی میں زہر گھولا۔ ان کا سوچنا بالکل ٹھیک ہو گا اس سے انحراف نہیں کیا جا سکتا۔ اس تناظر میں عمران خان کو بھی غور کرنا چاہیے وہ عوام کو جلسوں اور جلوسوں میں بے شک شامل ہونے کی اپیل کریں مگر ان کی خواہشات اور سپنوں کو بھی ملحوظ خاطر رکھیں انہوں نے آپ کا ساتھ دیا ہے کہ وہ ان کے لیے شہد اور دودھ کی نہریں بہائیں گے انہیں مایوس نہیں کیجیے گا مگر ہماری کون سنتا ہے یہاں مفاد پرست ٹولے ہمیشہ اقتدار و اختیار کے مالک بن جاتے ہیں اور غریب عوام کا استحصال کرتے ہیں۔ اپنی تجوریاں بھرتے ہیں بیرونی ممالک میں عالیشان محل تعمیر کرتے ہیں۔ وسیع کاروبار کرتے ہیں اور جائیدادیں بناتے ہیں لہٰذا یہ ایک سیاسی جماعت سے نکلتے ہیں تو دوسری میں چلے جاتے ہیں جس طرح آج کل اعتزاز احسن اور چودھری نثار کے بارے میں قیاس کیا جا رہا ہے وہ اپنی اپنی جماعتوں سے بیزار ہیں اور چاہ رہے ہیں کہ پی ٹی آئی میں داخل ہو جائیں۔ یہ سب کیا ہے کبھی یہ جماعتیں عام کارکنوں کو بھی بڑے عہدے دیں گی اور انہیں ایوانوں میں لے جائیں گی جواب ہے نہیں لہٰذا ایک اقتدار کا کھیل ہے جو ہر کوئی کھیل رہا ہے۔ لوگوں کو بے وقوف بنا رہا ہے دھوکا دے رہا ہے۔ جذبات کو ابھار کر ان کی ہمدردیاں حاصل کر رہا ہے تا کہ اختیارات کی باگ اپنے ہاتھ میں لے سکے۔ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں یہ تماشا نجانے کب تک ہوتا رہے گا معلوم نہیں مگر یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ اگر عوام اب بھی خود کو پہچان لیتے ہیں ابن الوقت سیاسی لگڑ بگڑوں کے پیچھے بھاگنا چھوڑ دیتے ہیں اور اپنی سانسیں بے ترتیب نہیں کرتے تو یہ جاری سیاسی تماشا جلد اپنے انجام کو پہنچ سکتا ہے پھر عوام اپنی منزل مراد کو بھی پا لیں گے۔

مصنف کے بارے میں