جو بائیڈن نے کیا کہا؟

جو بائیڈن نے کیا کہا؟

 پچھلے چند روز سے سوشل اور پرنٹ میڈیا پر سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر ایک موضوع بڑی شدت سے زیر بحث ہے اور وہ ہے امریکی صدر جوبائیڈن کا وہ حالیہ بیان جو انہوں نے لاس اینجلس میں کچھ روز پہلے ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک استقبالیہ کے موقع پر دیا ہے۔ اس بیان پر تبصرہ کرنے سے پہلے آئیے اس بیان کو اس کالم کا حصہ بناتے ہیں۔ جوبائیڈن نے کہا میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت پاکستانی قوم دنیا میں سب سے خطرناک قوم ہے جس کے نیوکلیئر اثاثہ جات بغیر کسی ہم آہنگی کے ہیں جو بائیڈن کے اس بیان پر پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف کا ردعمل سامنے آیا کہ میں واضح طور پر دہراتا ہوں: پاکستان ایک ذمہ دار جوہری (ریاست) ہے اور ہمیں فخر ہے کہ ہمارے جوہری اثاثوں کے پاس آئی اے ای اے کی ضروریات کے مطابق بہترین تحفظات ہیں۔ ہم ان حفاظتی اقدامات کو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ لیتے ہیں۔ شہباز شریف نے ٹویٹ کیا"۔ اسی بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے اپوزیشن راہنما اور سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے کہا کہ میرے پاس اس پر 2 سوالات ہیں: 1. جوبائیڈن کن معلومات کی بنا پر ہماری جوہری صلاحیت کے بارے میں اس غیر ضروری نتیجے پر پہنچے جب کہ وزیر اعظم رہنے کے بعد میں جانتا ہوں کہ ہمارے پاس سب سے محفوظ جوہری کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم ہے؟ امریکہ کے برعکس جو دنیا بھر میں جنگوں میں ملوث رہا ہے، پاکستان نے کب جارحیت کا مظاہرہ کیا ہے خاص طور پر نیوکلیئرائزیشن کے بعد؟ کیا یہ "ری سیٹ" ہے؟ اس حکومت نے نااہلی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں،" خان نے ٹویٹ کیا۔پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو کا ردعمل بھی وزیر اعظم پاکستان سے ملتا جلتا تھا۔ پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی تمام کے تمام ردعمل اور تبصرے تقریبا اوپر پیش کردہ تمام بیانات سے ملتے جلتے ہیں۔اب اگر ان تمام بیانات اور ردعمل کا بغور جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ تمام کے تمام رد عمل اور بیانات کا امریکی صدر جوبائیڈن کے بیان سے دور تک کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ جو بائیڈن نے تو اپنے بیان میں پاکستان کے نیوکلیئر اثاثہ جات کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم پر یا اس کی سیفٹی اور سیکیورٹی پر تو کوئی بات ہی نہیں کی۔ بائیڈن کے بیان کا یہ مطلب اس وقت لیا جاتا جب وہ اپنے بیان میں (state) یعنی ریاست یا (country) یعنی ملک کی بات کرتے یا براہ راست کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کو مورد الزام ٹھہراتے، انہوں نے تو (nation) یعنی قوم کا ذکر کیا ہے کہ پاکستانی قوم میں چونکہ (cohesion) یعنی (ہم آہنگی) نہیں ہے اس لئے یہ جوہری اثاثے غیر محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ اب ہم بالکل غیرجانبدار لیکن حقیقت پسند ہو کر دیکھتے ہیں کہ کیا پاکستانی قوم کے بارے میں امریکی صدر کا بیان واقعی حقیقت پر مبنی ہے یا کہ نہیں۔ اگر ہم اپنی پچھتر سالہ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ہم قیام پاکستان سے لے کر آج تک ایک قوم نہیں بن سکے بلکہ انسانوں کا ایک بیہنگم ہجوم ہے جو انفرادی طور پر اپنی اپنی دنیا میں مست اپنی اپنی سمت میں رواں دواں رہتا ہے۔ یہی حال پچھلے پچھتر سال سے صاحب اقتدار یا اپوزیشن سیاسی طبقے کا بھی ہے جن میں سے کسی نے بھی ذاتی مفادات سے باہر نکل کر ملک و قوم کا کبھی نہیں سوچا جس کی ماضی قریب میں تازہ مثالیں کورونا کی عالمی وبا کے موقع پر صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی آپس میں کھینچا تانی اور ابھی سیلاب کی آفت کے دوران حکومت اور اپوزیشن کی خود غرضی کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں۔ ماضی میں اسی خود غرضی اور ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھ کر ملک دو ٹکڑے ہوا، بھاشا ڈیم نہ بن سکا، ملک سے غربت دور نہ ہو سکی، عوام کو بنیادی سہولیات میسر نہ آسکیں اور ہم معاشی طور پر خود کفیل نہ ہو سکے۔ آج بھی انتہائی گھمبیر ملکی اقتصادی حالات کے باوجود تمام چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیوں اور ان کے راہنماوں کا رویہ اور سوچ ماضی جیسی ہی ہے اس میں کوئی سنجیدہ اور مثبت تبدیلی نہیں آئی سیاسی اور اخلاقی اقدار تنزلی کا شکار ہوتے ہوتینہ رکنے والی الزام تراشی، گالم گلوچ اور ذاتیات تک جا پہنچی ہیں۔ ایک ہی گھر میں اگر چار بھائی اپنی موروثی جائیداد کے اوپر ہر وقت آپس میں لڑتے رہیں گے تو یقینا جائیداد کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا چاہے وہ جائیداد کتنی ہی محفوظ اور قیمتی کیوں نہ ہو۔ آج سے سو سال پہلے مفکر پاکستان علامہ اقبال اور پھر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اس قوم کو ایک رکھنے کے لئے اس کے ضمیر کو جھنجھوڑا تھا اور آج امریکی صدر نے بھی وہی نقارہ بجایا ہے۔ جب تک پاکستانی قوم کے اندر آپس میں ہم آہنگی پیدا نہیں ہوتی اس کی سوچ اور رویے میں مثبت تبدیلی نہیں آتی اس کے قیمتی اثاثے غیر محفوظ ہی تصور کیے جائیں گے اسی لئے جب امریکی صدر نے پاکستانی ایٹمی اثاثوں کے غیر محفوظ ہونے کی بات کی ہے تو اس نے (ریاست) یا (ملک) کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ( قوم) کا لفظ استعمال کیا ہے جوبائیڈن کے بیان نے نہ صرف پاکستانی قوم کے بکھرے شیرازے کو اقوام عالم میں سب کے سامنے ایکسپوز کر دیا ہے بلکہ اس کے بیان پر آنے والے ہمارے قومی، سرکاری اور غیر سرکاری ردعمل اور تبصروں نے بھی بحیثیت قوم ہماری مجموعی حکمت اور دانشورانہ صلاحیت (collective wisdom and intellectual competency) پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے
 آئیے!آج ہم اپنے سارے ذاتی مفادات بالائے طاق رکھ کر وسیع تر قومی مفاد کی خاطر ایک قوم بننے کا عہد کریں اور پوری دنیا کو ثابت کر دیں کہ ہم ایک ذمہ دار ملک ہیں۔ اور ہمارے ایٹمی اثاثے بالکل محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔

مصنف کے بارے میں