ایک ٹانگ کا مجسمہ اورسیلاب

ایک ٹانگ کا مجسمہ اورسیلاب

انقلاب فرانس اختتام کے قریب تھا کہ انقلابیوں کا لیڈر آخری وقت میں شاہ فرانس سے جا ملا لیکن اُس کے ساتھیوں نے جدوجہد جاری رکھی اورایک دن وہ بادشاہ کو شکست دے کر اُس کے محل میں داخل ہو گئے بادشا ہ ٗ ملکہ اور شاہی خاندان کے دوسرے افراد کے علاوہ بادشاہ کے حمایتی بھی انقلابیوں کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچ گئے جن میں انقلابیوں کا پرانا ساتھی بھی تھا۔انقلاب ِ فرانس کے بعد جب حالات معمول پرآئے تو انقلابیوں نے اِس عظیم جدوجہد کرنے والوں کو خراج ِ تحسین پیش کرنے کیلئے اُن کی یادگاریں بنانے کا فیصلہ کیا اوریوں ایک طویل ٗکامیاب اور صبر آزما انقلاب میں قربانیاں دینے والوں کی فہرست بنانے کیلئے کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔ کمیٹی کو اُس وقت انتہائی مشکل کا سامنے کرنا پڑا جب اُس انقلابی کا نام بھی سامنے آ گیا جس نے ایک طویل جدو جہدتو اپنے ساتھیوں کے ساتھ کی تھی لیکن آخری وقت میں بادشاہ سے جا ملا تھا۔ وہ بیک وقت انقلابیوں کا ساتھی بھی تھا اور انقلابیوں کاباغی بھی۔ مسئلہ کا حل نہیں نکل رہا تھا کمیٹی اُس کی قربانیوں کے پیش نظر اُسے نظر انداز بھی نہیں کرسکتی تھی اور اپنے ساتھیوں سے غداری کرنے پر اُس کامجسمہ بنانے کیلئے بھی تیار نہیں تھی۔ بہت سوچ و بچا ر کے بعد ایک رکن نے کمیٹی کویاد دلایا کہ باغی انقلابی کی ایک ٹانگ بادشاہ کیخلاف جنگ کرتے ہوئے کٹ گئی تھی۔اب کمیٹی کیلئے آسانی ہو گئی انہوں نے تمام انقلابیوں کے مجسمے بنائے اور اپنے مرتد انقلابی ساتھی کی صرف اُس ٹانگ کامجسمہ بنایا جو بادشاہ کے خلاف لڑتے ہوئے کٹ گئی تھی۔ وہ ایک ٹانگ کا مجسمہ آج بھی وفا و جفا کی تصویر بنا فرانس میں ایستادہ ہے جس کے نیچے لکھا ہے کہ یہ ٹانگ انقلاب ِ فرانس کا حصہ ہے مرنے والے کے باقی جسم سے انقلاب ِ فرانس کا کوئی تعلق نہیں۔
پاکستان انقلاب کو ترسی ہوئی سرزمین ہے جہاں انقلابی نہیں رد انقلاب قیادتیں پیدا ہوتی ہیں اور پھر دہائیوں پرمحیط خاموشی میں سماج ٗ غم اوردکھ کے دن نئے ردانقلاب تک گزارلیتا ہے۔ انقلاب سے پہلے کی زندگی ہمیشہ جانوروں سے بدتر ہوتی ہے اور پاکستانی عوام ابھی تک اس عذاب سے گزر رہی ہے۔ ابھی کل کی بات ہے مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہوکر بنگلہ دیش بنا اورآج وہ ہمیں معیشت میں تو بہت پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ انہوں نے صرف پچاس سالوں میں ثابت کیا ہے کہ وہ ہم سے بہتر تھے۔کیونکہ انہوں نے سیکھنے کا عمل 1757ء میں جنگ پلاسی کے بعد شروع کر دیا تھا اور ہم 1857 ء کی جنگ آزادی کے بعد یا تو معافی نامے لکھ رہے تھے یا مشنری سکولوں او ر سرسید احمد خان کی تعلیمی سرگرمیوں کی مخالفت پر ساری طاقت صرف کر رہے تھے۔ میر جعفر سے آج کل ایک لیڈر پاکستانی عوام کا تعارف کروا رہا ہے لیکن شاید اُس نے میر جعفر کی حیات زندگی نہیں پڑھی۔ میرجعفر بنگالیوں کا مجیب الرحمان تھا۔ میر جعفر کی مخالفت کا دوسرا مطلب نواب سراج الدولہ کی حمایت اورانگریزوں کی مخالفت ہے لیکن دیانتداری سے غور کریں تو ہمارے لیے میر جعفر اور لارڈ کلائیو دونوں ہی ایک جیسے تھے کیونکہ ایک مغلوں کا ایجنٹ تھا اور دوسرا انگریزوں کا۔ہم نے فتح اور شکست دونوں صورتوں میں غلام ہی رہنا تھا اوراگربدلتییں بھی تو صرف ہماری زنجیریں تقدیریں نہیں بدلنی تھیں۔ غالبا پاکستان بنانے والوں کا بھی یہی نظریہ تھا کہ ہندووں کے ساتھ رہنے سے ہم ہندو اکثریت کی غلامی میں چلے جائیں گے اورصرف ہمارا آقا ہی بدلے گا۔ یہی صورت حال جنگ پلاسی میں تھی مگر آج میں دیانتدار ہو کر سوچتا ہوں کہ اگر انگریز اس خطے میں نہ آتا تو ہم آج بھی بیل گاڑیوں پر سفر کررہے ہوتے۔ ہمارے ہاں ریل کا ٹریک، پرائمری سکول سسٹم، نہری نظام، عدالتی نظام، ریاستی بندوبستی مشینری، ہسپتا ل، ہوائی جہاز، بحری جہاز اورایسے لاتعداد رحمتوں میں سے کچھ بھی نہیں ہونا تھا جو اللہ رب العزت نے ہمیں غلامی میں عطا کیں۔مسلم لیگ جس کے سر پر ہم پاکستان بنانے کا سہرا باندھتے ہیں اور دوسری جنگ عظیم جس کے بعد برطانوی سامراج ہمیشہ کیلئے ڈوب گیا اور امریکہ ایک نئی طاقت بن کر طلوع ہوا ہم مکمل مائنس کردیتے ہیں۔وہ مسلم لیگ بھی مشرقی پاکستان کے بنگالیوں نے بنائی تھی اور بعد ازاں بنگالیوں کو ہم نے مسلم لیگ سے ایسے ہی فارغ کیا جیسے عمران نیازی نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنے ابتدائی ساتھیوں کو کیا ہے۔    
ہم گزشتہ 75سالوں سے ایک تواتر اور تسلسل کے ساتھ تنزلی کا شکارہیں۔ ہمیں قیادتیں بھی چھوٹے سروں اورموٹے پیٹوں والی میسر آئیں۔ ملنگی سے لے کر مولاجٹ تک اوررضیہ سلطانہ سے لے کرچاند بی بی تک سب ہم پر حکومت کرچکے ہیں۔کسی کے پاس پاکستان میں بسنے والوں کے بہتر مستقبل کا کوئی نقشہ نہیں تھا۔ سب نے ماضی پرستی میں اپنا دور گزارہ ٗ سب اپنے سے پہلے حکمران کی شکایتیں لگا کر اپنی قبروں اور قبرنمااہراموں میں چلے گئے۔جہاں ضروریات زندگی کے انبار اُن کے در پر سجدہ ریز ہیں اوردوسری طرف حالیہ سیلاب کے مارے 
اپنی جوان بیٹیوں کو لئے سٹرک کنارے خیمہ زن ہیں۔ جہاں اُن کے پھٹے اوربوسیدہ لباسوں سے جھانکتا اُن کاجواں جسم اس ریاست کی غیرت کواقوام عالم کے سامنے برہنہ اورہوس پرست نظروں کو اِن کی طرف متوجہ کر رہا ہے۔وہ جن کے سر کبھی سورج نے نہیں دیکھے تھے آج باپ اوربھائیوں کے سامنے اجنبی ہوس پرست اجنبی آنکھوں کے حصارمیں ہیں۔اللہ یہ وقت کسی دشمن کو بھی نہ دکھائے۔ جہاں انسانوں کے زندہ بچے جلدی امراض میں مبتلا تیزاب برساتی دھوپ اوراُن کے زخموں کے اوپر مکھیوں کی بھنبناہٹ، مچھروں کی گھوں گھوں اورخدا جانے کون کون سا حشرات الارض اُن کے ارگرد محو رقص ہے۔ پانی ہے کہ ابھی شہروں میں کھڑا اترنے کا نام نہیں لے رہا۔ ایک بڑا انسانی المیہ ہماری تاک میں ہے لیکن سیاستدانوں کے کھیل تماشے ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے۔ سوشل میڈیا پر چلنے والے ٹرینڈز حکمرانوں اورنپولین کی اپوزیشن کے درمیان واٹر لو کا میدان بنا ہوا ہے۔ کسی کو الیکشن کی جلدی ہے اورکوئی الیکشن وقت پر کروانا چاہتا ہے۔ کوئی چوہدری پرویز الٰہی کو بھیجنے کا تمنائی ہے اور کوئی حمزہ شہباز کو دوبارہ لانا چاہتا ہے۔کوئی انڈے کلومیں بیچ رہا ہے اورکسی نے آٹا لیٹر میں بیچنا شروع کردیا ہے۔ سب کوکسی نہ کسی خواہش کی تکمیل کی جلدی ہے اگر جلدی نہیں ہے تو سیلاب میں ڈوبے بے آسراوں کی مدد کرنے کی جلدی کسی کو نہیں ہے۔
اس وقت آفت زدہ علاقوں میں جنہیں میں نے اپنی آنکھوں سے مدد کرتے دیکھا ہے وہ افواج پاکستان کے بعد اللہ اکبر تحریک، تحریک لبیک پاکستان،الخدمت، اخوت، دعوت اسلامی، عبد العلیم خان فاؤنڈیشن جو روزانہ کی بنیاد پر بلوچستان، جنوبی پنجاب اور اب سندھ میں بھی اپنے کیمپ لگا چکی ہے اس کے علاوہ لاہور سے شاعروں ادیبوں کی تنظیم سائبان جس کے روح رواں ملک کے نامورشاعر، ادیب،دانشوراستاد محترم حسین مجروح ہیں۔انہوں نے اپنی بساط سے زیادہ فنڈ جمع کیے اوراپنا سامان ریاض احمد احسان کے ذریعے اللہ اکبر تحریک کے سپرد کیا جنہوں نے اُن علاقوں میں سائبان کا بھیجا ہوا سامان لاہور کے شاعروں ادیبوں کے نام سے ضرورت مندوں میں بانٹ دیا۔ مجھے وہا ں پاکستان کی کسی بھی سیاسی یامذہبی جماعت کا کوئی بھی کیمپ نظر نہیں آیا۔پاکستان کے تمام مشہور فنڈریزر (عالمی بھکاری) کسی جگہ دکھائی نہیں دیئے۔ جہاں اس سیلاب میں جگہ جگہ بکھری پاکستان کے عام آدمی کی انسانیت نظر آ رہی ہے وہاں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی بے حسی اور فراڈیوں کی وارداتوں کی بھی لاتعداد خبریں مل رہی ہیں اورمیں سوچ رہا ہو کیا یہ لوگ اس سیلاب کے بعد بھی انہیں قیادتوں کے گُن گائیں گے جن کی وجہ سے اُن کے بچے اوراملاک سب رزقِ سیلاب ہوا ہے؟
مجھے یقین ہے کہ ایک وقت آئے گا جب یہ قوم اس ریاست کے مجرموں کے مجسمے بنائے گی توچند مکمل مجسموں کے علاوہ کسی کا پھانسی کا پھندہ، کسی کا خود کش، کسی کا طیارہ، کسی پرچلنے والی پستول اورکسی کا فاتح بیٹ اورمفتوح زیبرے کی باقیات پڑی ہوں گی۔ میں اُن ماوں کو بھی سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے ایسے بہاد ر بیٹے پیدا کیے جو وبائی امراض کے علاقوں میں دن رات صرف اورصرف اللہ کی رضا اورگنبدِ خضری کے مکینؐ کی خوشنودی اورشفاعت کیلئے اللہ کی بہترین تخلیق انسان کو بچانے میں دن رات مصروف ہیں۔ انہیں کسی سے ووٹ نہیں چاہیے ٗ کسی سے سوشل میڈیا نہیں چلوانا، کسی سے نعرے نہیں لگوانے اور نہ ہی انہیں کسی سے دنیاوی عہدوں کا کوئی لالچ ہے۔خدا تمہاری حفاظت کرئے کہ تم مستقبل قریب کے ہیروز اورآنے والی نسلوں کیلئے مشعل راہ ہو۔

مصنف کے بارے میں