آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس پر سماعت کل تک ملتوی

آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس پر سماعت کل تک ملتوی

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس پر سماعت کل تک ملتوی کر دی ہے۔ عدالت نے ریمارکس دئیے کہ کلچر بن گیا ہے فیصلہ حق میں آئے تو انصاف ہوا، خلاف آئے تو انصاف تار تار ہو گیا۔ 
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کیلئے صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی جس دوران پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی میں رہتے ہوئے دوسری جماعت کو ووٹ دینا فلور کراسنگ ہوتا ہے، آرٹیکل 62 اور 63 میں 1973 سے آج تک بہت پیوند لگے ہیں، منحرف اراکین کی تاحیات نااہلی پر کوئی آئینی دلیل نہیں دی گئی۔ 
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ بظاہر آرٹیکل 63 اے کا مقصد پارٹی سے انحراف روکنا تھا، دیکھنا ہے کہ منحرف ہونے کی سزا اتنی سخت ہے کہ رکن کے دل میں ڈر پیدا ہو یا نہیں، تاریخ گواہ ہے کہ پارٹی سے انحراف صرف ضمیر جاگنے پر نہیں ہوتا، کئی مغربی ممالک میں پارٹی سے انحراف رکوانے کی کوشش ہے، پارٹی سے انحراف کی سزا کیا ہو گی یہ اصل سوال ہے۔ 
جسٹس جمال خان نے استفسار کیا اگر پارٹی سے انحراف جرم ہے تو مجرم کا ووٹ کیوں شمار ہوتا ہے؟ کیا ممبر کی آواز پر پارٹی کے خلاف ووٹ دینا جرم ہے؟ یہ کیسا جرم ہے جس کی آئین میں اجازت دی گئی ہے۔ 
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ 1973 کے آئین میں آرٹیکل 96 پارٹی انحراف سے روکنا تھا اور 1973 کے آئین میں منحرف رکن کا ووٹ شمار نہیں کیا جاسکتا تھا، فوجی آمر نے آئین میں آرٹیکل 62 اور63 کو شامل کیا۔ ملک اس وقت انارکی کی جانب بڑھ رہا ہے، کوئی سپریم کورٹ فیصلے کو ماننے کو تیار نہیں ہے جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دئیے کہ کلچر بن گیا ہے کہ فیصلہ حق میں آئے تو انصاف ہوا، خلاف آئے تو انصاف تار تار ہو گیا۔
جسٹس جمال خان نے کہا کہ عوام کو یہ بھی علم ہوتا ہے کہ فیصلہ کیا آیا ہے، جو بات لیڈر کرتا ہے، عوام اس کے پیچھے چل پڑتی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ فرض کریں وزیراعظم کے خلاف چوتھے سال عدم اعتماد آتی ہے اور منحرف اراکین کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن جاتا ہے، الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ سے ایک سال فیصلے ہونے میں لگتا ہے اور فیصلے تک اسمبلی مدت پوری کر جائے تو منحرف رکن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔

مصنف کے بارے میں