عدالتیں کسی کو مجرم ٹھہرائیں تو اسے سیاست نہیں کرنی چاہیے بلکہ جیل میں ہونا چاہیئے ،سراج الحق

عدالتیں کسی کو مجرم ٹھہرائیں تو اسے سیاست نہیں کرنی چاہیے بلکہ جیل میں ہونا چاہیئے ،سراج الحق

اسلام آباد:  امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ مولانا سمیع الحق اور مولانا محمد احمد لدھیانوی اس ملک کے ٹیکس دینے والے شہری ہیں اگر ان کی قیادت میں چار پانچ افراد کا وفد وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے ملا ہے تو وزیر داخلہ کو دفاع کرنے کی بجائے یہ بتانا چاہیے کہ کس قانون کے تحت ایک شہری ان کے ساتھ ملاقات نہیں کر سکتا۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ اگر کسی فرد کے بارے میں فیصلہ دے دیں تو وہ مجرم ہیں تو مجرم کو جیل میں ہونا چاہیے اس کو سیاست نہیں کرنی چاہیے قوم کو بتانا چاہیے کہ اس نے یہ جرم کیا ہے لیکن ایک سیاسی نقطہ نظر کی بنیاد پر اگر امریکی کی پسند وناپسند کی وجہ سے فیصلے کیے جائیں گے تو ہم مزید دلدل میں پھنس جائیں گے، ہمیں اپنے مسائل ملک کے مفادات کی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ پاکستا ن میں استعفی دینے کا کوئی رواج نہیں ہے نہ روایت ہے نہ اب تک کسی نے استعفی دیا ہے ۔ اس لیے یہ وزارت داخلہ کا مسئلہ نہیں ہے ۔بحیثیت مجموعی حکومت کی ایک کمٹمنٹ اور اسکی کی کارکردگی کا مسئلہ ہے ۔اور چیزوں کو سنجیدہ طورپرلینے کا مسئلہ ہے یہ سانحہ کوئٹہ کا بھی مسئلہ نہیں ہے ابھی حال ہی میں چار سدہ کا مسئلہ ہے ۔ مردان کا مسئلہ ہے پشاور کا مسئلہ ہے لاہور کا مسئلہ ہے اور کراچی کا مسئلہ ہے ۔ یہ تو ایک کمیشن کی رپورٹ عوام کے سامنے ہے اگر ہر واقعے پر اس طرح کمیشن بن جائے اور اس کی رپورٹ آجائے تو اصل تصویر تب قوم کے سامنے آئے گی اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ بحیثیت مجموعی اس حکومت کی کارکردگی کی دیکھنا چاہیے اور ایک ایک واقعہ اور فرد کے بارے میں اگر ہم الجھ جائیں توشاید کوئی ایک فرد قربانی کا بکرا بن جائے گاجس طرح گزشتہ دنوں حکومت نے پرویزرشید کو فارغ کیا اور انہوںنے استعفی دیا لیکن ان کے استعفے سے کیا ہوا ۔ وہی نظام ہے وہی معاملات چل رہے ہیں ۔

ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ اگر کسی فرد کے بارے میں فیصلہ دیں تو وہ مجرم ہیں تو مجرم کو جیل میں ہونا چاہیے اس کو سیاست نہیں کرنی چاہیے قوم کو بتانا چاہیے کہ اس نے یہ جرم کیا ہے لیکن ایک سیاسی نقطہ نظر کی بنیاد پر اگر آپ امریکی کی پسند وناپسند کی وجہ سے فیصلے کیے جائیں گے تو ہم مزید دلدل میں پھنس جائیں گے اس لیے ہمیں پاکستانی مفادات کی عینک سے معاملات کر دیکھنے کی ضرورت ہے اس ملک کے ہر شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ کوئی جیل سے بھی وزیرداخلہ کو خط لکھنا چاہے تو کیا اس کو لکھنے کی اجازت نہیں ہے کیا اگر مولانا محمد احمد لدھیانوی کسی ہوٹل میں جا کر کھانا کھائیں تو اس ہوٹل کے مینجر کو گرفتار کیا جائیگا یا رکشہ کی سواری کرنے پر رکشہ کے ڈرائیور کو گرفتار کیا جائے گا اس سے ہمیں اپنے مسائل ملک کے مفادات کی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

مصنف کے بارے میں