ہاں میں بینظیر کا بیٹا ہوں

ہاں میں بینظیر کا بیٹا ہوں

بھٹو خاندان کی پاکستانی سیاست میں اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ ریاست میں لوگ مال کی قربانی دینا پسند نہیں کرتے جان تو بڑی دور کی بات ہے اور یہ خاندان جان ہتھیلی پہ لئیے پھرتا ہے ۔عوام سے محبت کرنا کسے کہتے ہیں وہ قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹو نے سکھایا اور پھر شہید بی بی نے اس محبت کو پروان چڑھایا اور آج بلاول بھٹو زرداری کی صورت میں عوام اس محبت کے شجر کو پھلتے پھلتے دیکھ رہے ہیں ۔میرا ایک شعر شاید اسی پس منظر میں ہے۔ 

مجھے مجنوں کی باتیں مت سناو
یہاں میں نے محبت ابتدا کی
بلاول بھٹو زرداری چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی کی سیاسی تربیت میں ان کے والد اور سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری کا بڑا اہم کردار ہے۔بلاول پاکستانی سیاست میں اس وقت داخل ہوئے جب ان کی والدہ کو شہید کیا گیا تھا اور ان کا خاندان زخموں سے چور چور تھا ۔پارٹی کو اور خاندان کو متحد رکھنا اور پھر کرسی صدارت پہ بیٹھ کر پاکستان کے اتحاد اور دہشت گردی جیسی عفریت سے جان چھڑانے کے عملی اقدامات نے آصف علی زرداری کی سیاسی فہم و فراست کو پوری دنیا پر نہ صرف عیاں کیا بلکہ دنیا نے اس کا اعتراف بھی کیا۔

اب جب کہ بلاول کی جانب سے چار مطالبات سامنے آ چکے ہیں اور پیپلز پارٹی مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں میں ہڑتال کی کال دے چکی ہے۔ سابق صدر کا واپس آنا یقیناً حکومت کے لئیے اچھا شگون نہیں ہے۔آصف زرداری جنہیں مفاہمت کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ اس بار بلاول بھٹو زرداری کی پرجوش اور ہر عزم قیادت میں اپنی تجربے کا گھوڑا دوڑانے آئیں گے اور سیاسی پنڈت بھی اس بات کو اچھی طرح سمجھ رہے ہیں کہ اب معاملہ چار حلقے کھولنے کا نہیں اور نہ ہی اناڑی کھلاڑی میدان میں اتریں گے۔


حکومت پانامہ لیکس کی وجہ سے پہلے ہی پریشر میں ہے ایسے میں پیپلز پارٹی جیسے اہم سیاسی جماعت کا دھرنے کا اعلان کرنا کسی بھی بڑے خطرے سے کم نہیں ۔

یہ بات حکومتی بینچوں کو ذہن نشین کر لینی چاہیئے کہ پیپلز پارٹی عوامی سیاست کی قائل ہے بلکہ اس کے بانی نے عوامی سیاست کا آغاز کیا تھا ۔اگر مطالبات پورے نہیں ہوتے اور پارٹی سڑکوں پر آتی ہے تو اس کی قیادت کسی فارم ہائوس میں نہیں بیٹھی تماشا دیکھ رہی ہو بلکہ سڑکوں پر ہر اول کا کردار ادا کرے گی ۔پھر بات ہو گی خلق گی ۔پھر راج کرے گی خلق_ خدا۔پھر ظالم حکمرانوں کا احتساب ہو گا۔پھر عوام کی عدالت لگے گی اور فیصلہ ہو گا عوامی حقوق کا ۔پانامہ کیس ہو یا قطری شہزادوں کا معاملہ ۔ کرپشن سے جان چھڑانی ہو یا کرپٹ سیاستدانوں سے۔دما دم مست قلندر ہو گا اور یہ طوفان تنکوں سے نہ ٹالا جائے گا۔

2017 کا آغاز پاکستان کا سیاسی منظر نامہ انتہائی ہنگامہ خیز دکھائی دے رہا ہے ۔عوامی سیاست کا عروج ایک بار پھر ہو گا اور فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے دینے والوں کی نیندیں حرام ہونے والی ہیں ،تیر کمان سے نکل چکا ہے اور اپنے ہدف کی جانب بڑھ رہا ہے ۔تاریخ ایک بار پھر اپنے آپ کو دہرانے والی ہے ،شہید بھٹو کا نواسا اور بی بی شہید کا سیاسی وارث عوام کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ظالم حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے گا اور فتح عوام کی حقوق کی ہو گی۔

بات کو ذرا آگے بڑھایا جائے اور پارٹی کی تنظیم سازی کی بات کی جائے تو قمر زمان کائرہ کو پنجاب کی صدارت دینا بلاول بھٹو زرداری کا احسن اقدام ہے ۔کائرہ ایک متحرک شخصیت کا نام ہے اور امید ہے پنجاب میں پارٹی کی از سر نو اٹھان دیکھنے میں آئے گی ۔اسی طرح بلوچستان اور کے پی کے میں بھی پارٹی کی دوبارہ تنظیم سازی کی ضرورت ہے ۔پاکستان پیپلز پارٹی ایک نظریہ کا نام ہے اور نظریہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔وہ وقت دور نہیں جب بلاول بھٹو کی قیادت میں پارٹی چاروں صوبوں میں دوبارہ پوری طاقت کے ساتھ ابھرے گی ۔

2018  الیکشن سے پہلے حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ بلاول کی سیاسی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

آنے والا وقت اس فیصلے پر اپنی مہر ثبت کرتے ہوئے بلاول بھٹو کو وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز کرے گا۔ترقی پذیر پاکستان کو بلاول بھٹو کی پرجوش،نڈر ،ذہین اور اعلی تعلیم یافتہ قیادت ہی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کر سکتی ہے ۔

بقول فیض
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو منظر بھی ہے ناظر بھی
اٹھے گا اناالحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

مصنف کے بارے میں

وقاص عزیز نیو کےنیوزاینکر،نوجوان شاعر اور سماجی ورکر ہیں