ہم سب ہی برائے فروخت ہیں!

ہم سب ہی برائے فروخت ہیں!

میڈیا کے توسط سے بارہا یہ باور کرایا جاتا رہا ہے کہ ہم سب برائے فروخت ہیں یعنی سب کی قیمتیں لگتی ہیں ٗ جیسے بازار میں مختلف انواؤ اقسام کی اشیاء فروخت کیلئے پیش ہوتی ہیں ، بالکل اسی طرح سے ہم لوگ بھی برائے فروخت ہیں۔ اب ہمارے خریدار ہمیں خرید کر آگ لگادیں یا پھر کسی بھی طرح سے ہماری بے عزتی کا سامان کریں ہم اس کی ملکیت جو ٹھہرے۔ 

بدعنوانی بھی دوطرفہ عمل ہے اگر ایک بدعنوانی کررہا ہے تو کسی کے ساتھ بدعنوانی ہورہی ہے یعنی اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ آپ اس مکمل زنجیر کو بے نقاب کریں جس کی کڑیاں مل کرکسی کو بدعنوان کہلانے تک کے عمل تک پہنچانے میں اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ بد عنوان افراد نہیں ہوتے بدعنوان معاشرہ ہوتا ہے۔ سڑک پر اگر ساری گاڑیاں اپنی اپنی رو میں رواں دواں رہیں تو بد انتظامی جسے حرف عام میں ٹریفک کا پھنسنا کہا جاتا ہے نا ہو، جہاں کسی ایک گاڑی نے یا اسکے چلانے والے نے اپنی اہمیت جتانے کی کوشش کی وہیں سے سارا معاملہ خراب ہوتا چلا گیا (علاوہ ایمبولینس کے)۔بدعنوانوں کو سادہ لوح لوگ بدعنوان بننے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ یہ کچھ ایسی حقیقتیں ہیں جس کی وجہ ہمارا نظام عدل ہے جہاں عام آدمی کی کوئی سنوائی نہیں ہوتی تو عام آدمی اس خوف سے کہ کہیں کوئی بڑا آدمی نا ہو گاڑی کو راستہ دے ہی دیتا ہے اسی طرح بدعنوانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جاتاہے۔ہم اپنا قیمتی ووٹ دیتے ہوئے اس بات کو خاطر میں ہی نہیں رکھتے کے اگر یہ ووٹ غلط نشان کے ساتھ چلا گیا تو کسی کو بدعنوانی کا پروانہ مل جائے گا اور اس بدعنوانی کی اکائی ہمارا ووٹ ہوگا۔


دھماکہ پاکستان کی مسجد میں ہو، امام بارگاہ میں ہو، مندر میں ہو یا پھر گرجا گھر میں ہو یہ سب پاکستانی ہیں۔ پاکستان کی اینٹوں سے بنے ہیں ان اینٹوں سے جن میں پاک سرزمین کی مٹی شامل ہے انہیں نام دے کر مختلف کیا گیا ہے جیسے یہ جگہیں ایک ہی خدا کی بڑائی ماننے کیلئے بنائی گئی ہیں۔ کیونکہ سرِ عام جو یہ بات کہنے سے خوف کھاتے ہیں کہ اللہ ایک ہے تو وہ چپکے سے ان مخصوص چار دیواریوں میں سرگوشیوں میں تھوڑی بہت شرمندگی سے سجدہ ریز ہوتے ہیں اور اپنے رب کی حقانیت کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں۔ یہ مضمون کسی مذہبی افہام و تفہیم کی مد میں نہیں لکھا جا رہا ہے ۔ اس میں تو پاکستانیت کے بنیادی تصوروں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔


جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے کہ ہر امت کا کوئی نا کوئی فتنہ ہوتا ہے تو ہمارے پیارے نبی ﷺ نے اپنی امت کا فتنہ مال اور اولاد کو قرار دیا اور بہت ہی وضاحت سے بتا دیا کہ اولاد کی محبت میں مال کے حلال اور حرام قید سے آزاہوتے جا رہے ہیں۔ معاشرے میں نفسا نفسی کی وجوہات کی اگر فہرست مرتب کی جائے تو سرِفہرست مال کا حصول کیسے ممکن ہو لکھا جائے گا۔ ہم اپنی ضرورتیں بڑھاتے ہی جا رہے ہیں دشمن کے سازشی ذہن نے سمجھ لیا ہے کہ ہمیں کیسے ٹھکانے لگایا جاسکتا ہے۔


ڈاکٹر، انجینئر، میکینک ، ہسپتال والے ، ہوٹلوں والے غرض یہ کہ درس و تدریس سے وابسطہ لوگ بھی اپنی اپنی بولیاں لگوارہے ہیں، جہاں سے اچھی قیمت ملتی ہے وہاں کے ہوجاتے ہیں۔ ایسا تو ہمیشہ سے ہی ہوتا آیا ہے جس کی وجہ سے ایک مثال وجود میں آئی کہ گھوڑا گھاس سے یاری کرے گا تو کھائے گا کیا۔ لیکن پہلے وقتوں میں لوگ انمول ہوتے تھے اخلاقیات اور اقدار کے علمبردار ہوتے تھے شائد ان جیسے لوگوں کیلئے ہی شاعر نے جذبات کو لفظوں کی شکل میں شعر بناکر پیش کیا ہے کہ
ہم خوشبو کے سوداگر ہیں سودا سچا کرتے ہیں
جو گاہک پھولوں جیساہو بن داموں بک جاتے ہیں
ہم سب آسائشوں کے دلدل میں پھنستے ہی چلے جا رہے ہیں اوران آسائشوں کے حصول کیلئے اپنے آپ تک کو گروی رکھنے سے گریز نہیں کر رہے۔ ابتک چھپ چھپاکے بدعنوان اپنی بدعنوانیوں سے معزز بنے چھپتے پھر رہے تھے مگر اب بدعنوانی کسی خاص ملک یا قوم کا نہیں بلکہ یہ امت کا مسلۂ بن کر سامنے آیاہے ۔ اس امت کی بدعنوانی کو ہماری سب سے بڑی کمزوری سمجھ کر (شائد ہے بھی) امریکہ اور اسرائیل نے مل کر ایک انتہائی کاری اور سفاکانہ ضرب لگائی ہے جس سے ہر مسلمان جس کے دل میں ابھی رائی کے برابر بھی ایمان ہے تڑپ کر رہ گیا ہے تو دوسری طرف پاکستان کیلئے عالمی اداروں نے قرضوں کی فراہمی کو یقینی بنانے کا عندیہ دے دیا ہے ۔ہم موت کے آنے تک خود کو موت سے ماورا سمجھنے لگے ہیں۔ ہم سب نے اپنے آپ کو دنیا کی آسائشوں کے آگے برائے فروخت لکھ کر پیش کردیاہے اور ہم مسلسل فروخت ہورہے ہیں ۔ جی ہاں اس میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ ہم سب ہی برائے فروخت ہیں۔

مصنف کے بارے میں

خالد ذاہد شعر کہنے کا شغف رکھتے ہیں،آرٹیکل اور بلاگ لکھتےہیں، انکا ماننا ہے کہ ان کا قلم ملک میں قیامِ امن اورہم آہنگی کے فروغ میں کردار ادا کرسکتا ہے