وزارتی ایوارڈ:’’ اپنے بھی خفا مجھ سے بیگانے بھی ناخوش‘‘

وزارتی ایوارڈ:’’ اپنے بھی خفا مجھ سے بیگانے بھی ناخوش‘‘

اقتدار کی پائیداری مکڑی کے جالے سے بنے ہو ئے اس گھر کی طرح ہے جسے ہوا کا ایک معمولی جھونکا تہہ وبالا کر کے رکھ دیتا ہے مگر اس کے باوجود حکمران طبقے کا زعم یہ ہوتا ہے کہ انہوں نے ذوالقرنین کے اس سیاہ چشمے کا پانی پی رکھا ہے جسے پی کرانسان اور ہوجاتے ہیں اور انہیں ہمیشہ کی زندگی نصیب ہو جاتی ہے یہ بہت بڑی خودفریبی ہے۔
سیاست میں کئی وارداتیں کسی اور بڑی واردات کو چھپانے یا اس کا اثر زائل کرنے کے لیے کی جاتی ہیں تا کہ عوام کی توجہ اصل مسئلے سے ہٹ کر کسی اور طرف کردی جائے۔ صحافی محسن بیگ کی گرفتاری بھی ایسی ہی واردات تھی جس کا مقصد پٹرول کی قیمت میں 12 روپے سے زیادہ تاریخی اضافے پر ٹی وی چینلوں کے خصوصی ٹاک شوز میں پٹرول کی قیمت کے موضوع کو گھر کے پچھلے صحن میں دھکیلنا تھا۔ ایک طرف 23 کروڑ عوام کے مفاد کی پر ڈاکہ ڈالنے کی بات تھی جبکہ دوسری طرف محسن بیگ اور ایک وزیر مراد سعید کے در میان کوئی ذاتی رنجش کا معاملہ تھا توقعات کے عین مطابق میڈیا نے 23 کروڑ کے موضوع کو 2 بندوں کی ذاتی لڑائی پر قربان کر دیا اور ہر طرف محسن بیگ کی گرفتاری آن ائیر کردی گئی باقی سارے موضوعات پیچھے رہ گئے۔ اس واقعہ کے بعد محسن بیگ چینل مارکیٹ میں سب سے مہنگا بکنے والا اینکر بن جائے گا وہ راتوں رات شہرت کے عروج پر اچھال دیا گیا ہے۔ اب حکومت کو سمجھ آ رہی کہ معاملے کو کیسے کنٹرول کیا جائے بجائے اس کے کہ حکومت اپنی Facce Saving یا عزت بچانے کی کوئی تدبیر کرے وزیرا عظم ذاتی طور پر خود اس involve ہونا شروع ہوگئے ہیں پتہ نہیں ان کے کس مشیر نے انہیں کہا ہے کہ ایڈووکیٹ جنرل کو بلا کر خود اس بات کی وضاحت طلب کریں کہ معزز جج نے محسن بیگ کی گرفتاری کو غیر آئینی کیوں قرار دیا ہے بقول اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل جج صاحب نے جلد بازی میں غلط فیصلہ کیا لیکن سرکاری وکیل قوم کے سامنے اس جلد بازی کی وضاحت کرنے سے قاصر رہے جس کے تحت مراد سعید کی ایک فون کال پر بغیر اندراج مقدمہ ایک خیالی ملزم کو تہہ تیغ کر دیا گیا۔ 
دوسری جنگ عظیم میں جب برطانیہ جرمن بمباری سے بوکھلا چکا تھا اور شاہی محل پر بھی ہوائی حملے ہو چکے تھے تو جنگ کے دوران پارلیمنٹ کا ہنگامی اجلاس تھا ونسٹن چرچل وزیراعظم تھے۔ ایک اپوزیشن ممبر نے بڑی جذباتی تقریر کی اور حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے وزیراعظم کو پاگل قرار دیدیا۔ چرچل یہ سب کچھ سنتے رہے اور مسکراتے رہے پھر وہ تقریر کرنے کیلئے اٹھے تو انہوں نے مذکورہ ممبر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں تمہیں جیل بھجوا دوں گا اس لیے نہیں کہ تم نے مجھے پاگل کہا ہے بلکہ اس لیے کہ تم نے ہمارے دشمنوں کے سامنے ایک قومی راز فاش کر دیا ہے اس کے ساتھ ہی پورا ایوان قہقہوں سے گونج اٹھا چرچل کی طرف سے اتنی سخت تنقید کا اتنا مزاحیہ اور غیر سنجیدہ جواب ان کے مخالفین کے لیے بھی حیران کن تھا۔ مگر ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا یہاں تو مخالف کو جیل بھیجنے کا اہتمام کیا جاتا ہے خواہ اس کے لیے 35 کلو ہیروئن اپنے پاس سے ہی ڈالنا پڑے۔ محسن بیگ کے جرم کی نوعیت کا جو تاثر دیا جا رہا ہے اسے تو خوش ہونا چاہیے کہ ابھی تک ایف آئی اے نے اس پر 35 کلو ہیروئن نہیں ڈالی۔ 
انسانی حقوق اور شخصی آزادی کے ضمن میں یہ بات غور کرنے کی ہے کہ ایف آئی اے نے ملزم کے گھر پر چھاپہ صرف مراد سعید کی ٹیلی فون کال پر مارا۔ ایف آئی اے کی چھاپہ مار ٹیم سادہ کپڑوں میں دیواریں پھلانگ کر گھر میں اترے جس پر گھر والوں نے سمجھا کہ ڈاکو آگئے ہیں تو انہوں نے مزاحمت شروع کردی جب معاملہ قابو سے باہر ہوتا دکھائی دیا ایف آئی اے کی مزید نفری وردیاں پہن کر پہنچی اور ایک ماورائے آئین اور ماورائے ضابطہ کا رروائی کو قانونی شکل دینے کی کوشش کی گئی۔
ہمیں نہیں پتہ کہ محسن بیگ نے اپنے ٹی وی پروگرام میں وزیراعظم چر چل کے واقعہ جیسے کس قومی راز سے پردہ اٹھا دیا لیکن اگر اس پر وزیراعظم چرچل والا رویہ اپنایا جاتا تو شاید حکومت کے عزت و وقار کی جو دھجیاں اڑی ہیں وہ بچ جاتیں اس سے آپ اندازہ لگالیں کہ وزیراعظم چرچل کتنے بڑے سیاستدان اور حکمران تھے ۔دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کی فتح کا کریڈٹ اسی لئے انہیں جاتا ہے۔
حکومت یہ سمجھتی ہے کہ مراد سعید کو موضوع بنا کر اپوزیشن اور میڈیا نے حکومت کو تماشا بنانے کی کوشش کی ہے لیکن حکمرانوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہونا چاہیے کہ انہوں نے آخر کیوں خود کو تماشا بنا رکھا ہے بات یہاں سے شروع ہوئی تھی کہ مراد سعید نے ایسا کیا کام کیا ہے کہ وہ 55 رکنی بھاری بھر کم کابینہ کی فوج میں پہلے نمبر پر ہیں اور وزیراعظم کی آنکھوں کا تارا ہیں۔ اس سارے منظرنامے میں ریحام خان کی کتاب کے پہلے حوالے نکال لئے گئے اور ایک قطعی غیر ضروری Debate شروع ہوگئی۔ معاملہ یہ ہے کہ وزراء کوانعامات اورسرٹیفکیٹ دینے کی روایت کیوں شروع کی گئی یہ ایک ایسا اقدام تھا۔ جس پر بقول شاعر
اپنے بھی خفا مجھ سے بیگانے بھی ناخوش
یہ شاید واحد حکومتی فیصلہ تھا جس پر اپوزیشن اور حکومتی وزراء سب کو اعتراض تھاماسوائے ان 10 وزیروں کے جنہیں ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ ایک دفعہ پھر سوچنا پڑ تا ہے کہ اس معاملے میں وزیراعظم کی مشاورت کس نے سر انجام فرمائی ۔
یہ ایک قدرتی امر ہے کہ حکمران اپنی طاقت کے نشے میں جب کسی مخالف کو ذاتی انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے ریاستی طاقت کا استعمال کرتے ہیں تو جو Victim ہوتا ہے وہ ہیرو بن جاتا ہے نواز شریف نے اسی نفسیات کے تحت سلمان تاثیر اور نجم سیٹھی پرمقدمات بنا کر انہیں جیل بھجوایا تو یہ فیصلہ ان کے لیے نعمت غیر مترکبہ ثابت ہوا اور اپنے اپنے کیریئر میں بہت اوپر چلے گئے محسن بیگ آنے والے وقت کا نجم سیٹھی ہے اسے حکومت کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ وہ بھی نجم سیٹھی کی طرح کسی نگران سیٹ اپ میں وزیراعلیٰ نہ بن جائے۔ جہاں تک وزیراعلیٰ پنجاب جیسے اعلیٰ آفس کیلئے اہلیت کا معاملہ ہے توجب عثمان بزدار وزیراعلیٰ بن سکتا ہے تو کسی کیلئے بھی اہلیت کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔
وزیراعظم عمران خان اندر سے بخوبی سمجھتے ہیں کہ مراد سعید نے ایف آئی اے کو فون کر کے ’’نواں کٹا کھول دیا ہے‘‘ اوپر سے عدم اعتماد کی تلوار لٹک رہی ہے جبکہ جہانگیر ترین اور ان کا گروپ تقریباً اپوزیشن کے ساتھ جانے کا فیصلہ کر چکا ہے اس سارے پس منظر میں حکومت کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے لیکن اپوزیشن ایک دفعہ پھر تذبذب کا شکار نظر آتی ہے کہ کیوں نہ ان کو مدت پوری کرنے دی جائے۔ عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔ 

مصنف کے بارے میں