مہنگائی اور دہشت گردی کی جنگ

مہنگائی اور دہشت گردی کی جنگ

موجودہ دور میں مہنگائی ایک انٹرنیشنل مسئلہ بن چکی ہے اور دنیا میں آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ تمام اشیاء کی قیمتوں میں بھی دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے جیسے جیسے آبادی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اس اعتبار سے پیداوار میں اضافہ نہیں ہو رہا جس کی وجہ سے قیمتوں میں بھی بے جا اضافہ کرنا پڑتا ہے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک تو اس کا مقابلہ کر لیتے ہیں مگر ترقی پذیر ممالک کا تیل کی قیمتوں میں بھی اضافہ کی وجہ سے برا حال ہو جاتا ہے پاکستان کو ہی لے لیجئے یہاں پر پالیسیاں بہت اچھی بنائی جاتی ہیں مگر ان کا اطلاق نہیں ہوتا جس کی وجہ سے ہمیں دیگر ترقی یافتہ ممالک کا سہارا لینا پڑتا ہے اب موجودہ حالات کا ہی ہے اندازہ کیجئے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت ریونیو بڑھانے کے لیے حکومت نے مختلف اشیا اور خدمات پر لاگو سیلز ٹیکس کی شرح 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کردی۔ یہ اضافہ عوام پر ایک بم کی طرح گرا ہے جس نے سفید پوش آدمی کی تو پسلی ہی توڑ کر رکھ دی ہے وہ حالات کی گرفت میں اس طرح جکڑا جا چکا ہے کہ وہ خود کو اپنے خاندان کو مہنگائی کی دلدل میں ڈوبتا روزانہ دیکھتا ہے اب یہ 18 فیصد ٹیکس میں اضافہ اس طرح کے اقدام خدمات کے علاوہ کھانے پینے کی اشیا سے لے کر گھریلو ضروریات کی چیزیں مزید مہنگی ہوجائیں گی۔ مہنگائی اور قرض کا بڑھتا بوجھ ہونا تو کچھ یوں چاہیے کہ تمام سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کے اثاثوں کو ضبط کرکے بیچ دینا چاہیے اور ان سے حاصل کردہ رقوم سے قرضوں کی ادائیگی کی جائے۔ تمام ججز، بیوروکریسی، وزیروں، مشیروں کی سرکای گاڑیاں ختم کرکے بیچ دی جائیں۔ اپنی ذاتی گاڑیوں، ذاتی پٹرول پر دفتر آمد و رفت شروع کریں،گھر کے گیس بجلی، ٹیلیفوں کے بلوں کی ادائیگی اپنی تنخواہوں سے کریں، جس طرح عوام کرتی ہے۔
مہنگائی کی تلوار عوام کو کاٹتی چلی جارہی ہے یہ سب کچھ کیا دھرا ہمارے حکمرانوں کا ہے آتے ہیں آئی ایم ایف سے قرضہ لے کے اپنی زندگی شاہانہ بنا کر چلے جاتے ہیں 
"میں باغی ہْوا ظلم کی دھار سے
ان ظالم لٹیروں کی تلوار سے"
میرے ملک میں بے شمار مسائل ہیں جہاں پر ایک طرف مہنگائی نے عوام کا جینا محال کر دیا ہوا ہے تو دوسری جانب دہشت گردی بھی پیچھے نہیں رہی سمجھ سے باہر ہے کہ ملک کس طرف جا رہا ہے جہاں پر اتنے مسائل اور وہاں پر دہشتگردی بھی ایک بہت نمایاں مسئلہ ہے نہ ملک میں رہ سکتے ہیں نہ باہر جانے کے لئے غریب آدمی کے پاس پیسے ہیں ملک سے باہر جانا اس لیے مجبوری بنتا چلا جا رہا ہے کے یہاں پر عوام کو تحفظ تک میسر نہیں۔ جہاں پر سیاسی معاشی بحران ہیں وہاں پر دہشت گردی بھی پیچھے نہیں رہی پاکستان میں دہشت گردی کا آغاز اس وقت ہوا ادھر پاکستان سوویت افغان جنگ کے دوران افغان مجاہدین کی حمایت کی اور اس کے بعد افغانستان میں ہونے والی خانہ جنگی میں پاکستان بھی خوب جلا اور اب تک جل رہا ہے اور پاکستان کے حکام کے فیصلوں کو آج تک عوام الناس بھگت رہے ہیں اس کی مثال گزشتہ روز جو واقعہ پیش آیا صوبہ سندھ کے دارالحکومت میں شاہراہ فیصل پر واقع کراچی پولیس چیف کے دفتر پر دہشت گردوں کا حملہ، تقریباً ساڑھے تین گھنٹے سے زائد مقابلے کے بعد عمارت کو دہشت گردوں سے کلیئر کرا لیا حملے میں تین دہشت گرد مارے گئے۔ پولیس کی کارروائی کے دوران ایک دہشت گرد نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا جبکہ دیگر دو پولیس کی فائرنگ سے ہلاک ہوگئے۔ پولیس ترجمان نے کہا کہ یہ ایک اہم کارروائی تھی، جس کو کوئیک رسپانس فورس (کیو آر ایف) کے ڈی آئی جیز، جنوبی اور شرقی اور دیگر افسران نے بہادری سے مکمل کیا۔
اس کاروائی میں پولیس آپریشن میں رینجرز اور فوج کے اہلکاروں نے بھی حصہ لیا جبکہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بھی آئی جی کے دفترپہنچے اور واقعے کے حوالے سے معلومات لیتے رہے مگر بات صرف معلومات تک کی نہیں ہے اب وقت آ چکا ہے کہ ہم لوگوں کو ان دہشتگردوں کو لگام ڈالنی ہوگی کب تک ہمارے اداروں کو یرغمال بناتے رہیں گے اور حملہ کرتے رہیں گے اس سانحہ میں ایک ہیڈ کانسٹیبل اور ایک شہری شہید ہوا اور 15 افراد زخمی ہوئے، جن میں پولیس اور رینجرز اہلکار بھی شامل تھے مجموعی طور پر 3 حملہ آور تھے، جو انڈس کرولا کار میں تین بیگز میں کھانے پینے کی چیزوں کے ساتھ آئے تھے ایک حملہ آور نے کراچی پولیس کی عمارت کے چوتھے فلور پر خود کو اڑا لیا جبکہ دیگر دو کو عمارت کی چھت پر مار دیا گیا تھا مگر سوال یہ آتا ہے کہ ہم ان معاملات سے کب تک ایسے لڑتے رہیں گے ہم کب تک اغیار سے قرضہ مانگتے رہیں گے کب تک دہشتگردی سے نمٹنے رہیں گے دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہمارے ملک میں انتخابات ختم ہونے کا نام نہیں لیتے اقتدار کی جنگ ختم ہونے کا نام نہیں لیتی غریب مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے اور دوسری جانب عوام کو تحفظ بھی نہیں مل رہا یہ دشمن عناصر لوگ پاکستان کے ساتھ کیا کرنا چاہ رہے ہیں سمجھ سے بالاتر ہے یہ کہو گے کہ اس ملک کے حکمران بھی ایسا دیا ہوا تحفہ ہے اس ملک کو کہ جن کا کوئی حال ہی نہیں کیوں کہ یہ پہلا واقعہ دہشت گردی کا نہیں ہوا کہ پچھلے چار پانچ ماہ سے پاکستان میں دہشتگردی بہت زور پہ ہے اور دہشت گرد بہت پلاننگ کے ساتھ چل رہی ہیں دہشت گرد سمجھیں گے کہ ہمارے حوصلے پست ہو جائیں گے جیسے آج ان کو مار گرایا ہے آئندہ ان کے گھر ہی اکھاڑ دیئے جائیں گی جڑ سے تاکہ ان کی افزائش ہی نہ ہو سکے۔
کالی بھیڑیں کون ہے؟جو ہمارے بیچ کے ہمارا لہو بہا رہی ہیں جہاں پر میرے شہر جل رہے ہیں میرے لوگ مر رہے ہیں وہاں پر کیا کسی باہر والے نے خوب الزام لگایا کے مملکت دہشت گردی کو فروغ دیتی ہے تو اپنی حفاظت ہو ہی نہیں سکتی۔ وہ کسی کی کیسے حفاظت کریں ان دشمن عناصر کا انجام بہت برا ہوگا اور دشمنوں کے انجام کا انتظار کرتی ہوں تو
فیض کی ایک نظم یاد آتی ہے 
"جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں 
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
جب دھرتی دھڑ دھڑ ڈھڑکے گی
اور اہلِ حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے"