افغان سفیر کی واپسی کے بعد افغانستان میں پاکستانی سفیر بھی اسلام آباد پہنچ گئے 

افغان سفیر کی واپسی کے بعد افغانستان میں پاکستانی سفیر بھی اسلام آباد پہنچ گئے 
سورس: فائل فوٹو

اسلام آباد : افغان سفیر نجیب اللہ علی خیل کی صاحبزادی سلسلہ علی خیل کے مبینہ طور پر اغوا کا معاملہ پراسراریت اختیار کرتا جا رہا ہے تاہم اعلیٰ حکومتی شخصیات کا اس واقعہ کے حوالے سے جو ابتدائی ردعمل اور فکر مندی تھی اس میں بتدریج کمی آ رہی ہے اور قیاس ہے کہ آنے والے بہت تھوڑے وقت میں یہ ’’پنڈورا باکس‘‘ کھولنے والے اصل کردار بے نقاب ہو جائیں گے۔ 

 انتہائی افسوسناک لمحہ فکریہ ہے کہ ایسے موقع پر جب پاکستان اس واقعہ کی تحقیقات کے آخری مراحل میں ہے افغان سفارتخانے کے عملے کو و اپس بلانے کا انتہائی قدم اٹھایا گیا ہے۔ دوسری جانب کابل سے پاکستانی سفیر منصور احمد خان واپس اسلام آباد پہنچ گئے وہ  آج وزارت خارجہ کے اعلی حکام سے ملاقاتیں کرینگے اور ہفتہ کو کابل میں افغان دفتر خارجہ میں طلبی کے حوالے سے اعلی سفارتی حکام کو بریفنگ دیں گے۔ 

کسی بھی ملک میں سفارتی عملے اور بالخصوص سفیر اور اسکے اہل خانہ کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے‘ یہی وجہ تھی کہ وزیراعظم عمران خان نے فوری طور پر متعلقہ حکام کو ہدایت کی تھی کہ اس معاملے کی تحقیقات کی جائے اور اصل کرداروں اور حقائق کو سامنے لایا جائے۔

 پاکستان کی سفارتی تاریخ میں اپنی نوعیت کا غالباً یہ پہلا واقعہ ہے کہ کسی ملک کے سفیر کی صاحبزادی کے ساتھ ایسا ’’واقعہ منسوب‘‘ ہو کر منظر عام پر آیا ہے جس کی تہیں اب کھل رہی ہیں۔ 

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان اور پڑوسی ملک ہندوستان کے تعلقات جو اکثر اوقات کشیدگی کی انتہا پر رہے حتیٰ کہ سفارت کاروں کے تعاقب اور انہیں ہراساں کرنے کے معاملات بھی آئے دن پیش آتے تھے‘ اُس دوران بھی کبھی فریقین کے درمیان اس نوعیت کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔

 یہ درست ہے کہ ابتدائی طور پر سلسلہ علی خیل کا جو بیان سفارتخانے کے ذرائع کے حوالے سے سامنے آیا وہ حد درجہ تشویش ناک تھا اور اسکی ابتدائی تحقیقات اور تفصیل کا انتظار کئے بغیر ہی پہلے ’’سوشل میڈیا‘‘ کے جلد بازوں نے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں مبالغہ آرائی شروع کر دی ۔

عالمی نشریاتی اداروں نے بھی اس خبر کو نمایاں کیا اور بالخصوص بھارتی میڈیا نے اس حوالے سے پاکستان کے سکیورٹی اور حکومتی اداروں کو نہ صرف مطعون ٹھہرایا بلکہ ماضی کے واقعات جو محض الزامات ثابت ہوئے تھے‘ اُنکی آمیزش سے پاکستان کے خلاف ایک بیانیہ ترتیب دینا شروع کر دیا اور اسکی تقلید میں افغان میڈیا بھی حسب توفیق پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کرتا رہا۔

کابل میں متعین پاکستان کے سفیر منصور احمد خان کو گزشتہ روز افغان وزارت خارجہ میں طلب کیا گیا اور ’’اغوا‘‘ کے اس واقعہ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سخت الفاظ میں اسکی مذمت بھی کی اور اس حوالے سے جاری اپنے ایک بیان میں کہا کہ افغان حکومت‘ حکومت پاکستان سے اس بات کی یقینی توقع رکھتی ہے کہ اس واقعہ کے ذمہ داران کو بلاتاخیر گرفتار کر کے انہیں سامنے لایا جائیگا اور قرار واقعی سزا دی جائیگی اور اسلام آباد میں افغان سفارتخانے کے سفارت کاروں اور انکے اہل خانہ کو سفارت کاری کے بین الاقوامی قواعدو ضوابط کے مطابق مکمل تحفظ دیا جائیگا۔

 سکیورٹی کے ادارے جو مختلف پہلوئوں سے اس سارے واقعہ کی تحقیقات کر رہے ہیں یقیناً اُنکے پیش نظر یہ پہلو بھی لازمی ہو گا کہ کسی بھی ملک کے سفیر کے اہل خانہ کو بھی سکیورٹی کی تمام مطلوبہ مراعات دی جاتی ہیں اور وہ سکیورٹی کے ہمراہ ہی سفارت خانے کو مختص شدہ نمبر کی مخصوص نمبر پلیٹ کی گاڑی میں سفر کرتے ہیں اور گاڑی سے باہر نکلنے کے بعد بھی مسلح سکیورٹی کا ایک اہلکار انکے ہمراہ ہوتا ہے‘

 تو پھر سلسلہ علی خیل نے ان تمام قواعدو ضوابط کی خلاف ورزی کیوں کی؟ کیا اُنکے والدین یا دیگر اہل خانہ کو اس بات کا علم تھا کہ سلسلہ گھر سے باہر گئی ہوئی ہے؟ پھر سفارت خانے کی گاڑی میں گھر سے باہر جانے میں کیا امر مانع تھا؟ اگر مبینہ طور پر گھر سے ٹیکسی منگوائی گئی تو کسی کو اس بات کا علم نہیں ہوا جبکہ گھر کے باہر بھی مسلح سکیورٹی گارڈ متعین ہوتے ہیں۔

 تحقیقات میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ سلسلہ راولپنڈی بھی گئی اور اسلام آباد کے علاوہ ’’سیاحتی بلندی‘‘ پر واقع ایک تفریحی مقام پر بھی گئی جہاں ایک معروف ہوٹل میں لوگ اسلام آباد کے شورو شرابے سے محفوظ اور اوجھل ہو کر وقت گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں۔