بلوچستان ، تناؤ کا حل صر ف ٹیبل ٹا ک

بلوچستان ، تناؤ کا حل صر ف ٹیبل ٹا ک

جمہوری نظام میں کتنی ہی خر ا بیا ں ہو ںمگر اس کی ایک اہم خو بی یہ ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کی درستی میں بغیر کسی کی مذمت کے نئے راستوں کا انتخاب کرتی ہے۔یہ اس خو بی کا نتیجہ ہے کہ بلوچستان کی سیاست میں فعالیت کی لہر ایک نیک شگون کی صو رت میں نظر آنے لگی ہے۔ مبصرین نے اس عمل کو سیاسی جمود، تنائو کے خاتمہ اور جمہوری عمل کی روانی میں فرق سے تعبیر کیاہے۔ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ سیاسی فیصلے دور اندیشی سے کیے جائیں تو ان سے سیاسی اور جمہوری عمل میں یکلخت تبدیلی کے امکانات صورت حال میں پیراڈائم شفٹ کا باعث بنتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں ناراض بلوچ رہنمائوں سے مذاکرات کا عندیہ دیا۔ یہ صوبے کی سیاست کے لیے ایک بہترین فیصلہ تھا جس سے ٹیبل ٹاک کو جمہوری کمک ملی۔ سیاست دانوں نے شاہ زین بگٹی کی تقرری کو بلوچستان کی سیاست کے لیے خوش آئند قرار دیا۔ یاد دلا دوں کہ وزیراعظم نے جمہوری وطن پارٹی کے شاہ زین بگٹی کو معاون خصوصی برائے مفاہمت و ہم آہنگی بلوچستان مقرر کردیا ہے۔ کابینہ ڈویژن نے شاہ زین بگٹی کی تقرری کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا ہے، انہیں وفاقی وزیر کا درجہ دیا گیا ہے۔ شاہ زین بگٹی ناراض بلوچ رہنمائوں سے سیاسی اور قومی ہم آہنگی پر مذاکرات کریں گے۔ شاہ زین بگٹی کی تقرری کے بعد وفاقی کابینہ کے ارکان کی تعداد 51 ہوگئی ہے۔ شاہ زین کی تقرری وزیراعظم کی ناراض بلوچ رہنمائوں کو قومی دھارے میں لانے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ بلوچستان کی سیاست میں بنیادی اور ساختیاتی تبدیلیوں کی ضرور ت کا سلسلہ برسوں پہلے شروع ہوجانا چاہیے تھا۔ وفاق اور صوبے کے درمیان تعلقات میں تنائو، بداعتمادی اور کشیدگی کے اسباب پر بحث کی اب ضرورت نہیں بلکہ معاملات کو اسی سرعت، سیاسی بصیرت سے حل کرنے کی ہے۔ بلوچ سیاست اختلافات، تنازعات اور ابہام و تاریخی حقائق کے انتشار کے باعث جمہوری عمل اور عوام کے مسائل کے حوالے سے ایک سوالیہ نشان بنی رہی، صوبہ کے عوام نے نقصانات دیکھے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بے ہنگم جمہوری واقعات اور سیاسی عمل کے تسلسل کے باعث سیاسی تجزیہ کار بنیادی سیاسی معاملات کی تاریخی نوعیت کے ادراک کو قبائلیت، سرداری سسٹم اور جامد سیاسی سوچ کا شاخسانہ سمجھتے رہے۔ سیاسی رہنمائوں کا کہنا تھا کہ بلوچستان سالہا سال سے اس بات کے لیے ترستا رہا کہ کوئی ایسی آفاقی سیاسی فضا قائم ہو جس میں پاکستان کے اس حصے میں بلوچ قوم پرست سیاست اور دیگر جمہوری اکائیوں اور مرکزی حکومت میں سردمہری کی جگہ یگانگت، یک جہتی، ہمہ گیر ہم آہنگی پیدا ہو اور پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کو رقبے کے لحاظ کے علاوہ بھی سیاسی، پارلیمانی اور جمہوری نظام میں اختلافات سے بالاتر کوئی مناسب مقام ملے تاکہ عنادی و دوری ختم ہو جبکہ جمہوریت اور عوام 
کی خوش حالی اور صوبے کی ترقی کے لیے سیاسی عمرانی معاہدے اور جمہوری، معاشی اور ثقافتی میثاق پر اتفاق رائے کے نئے عہد کا آغاز کرنا چاہیے۔ سیاست میں سیاسی تبدیلی اور سماجی تغیرات کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ سیاسی عمل میں شریک منتخب نمائندے بلوچستان سے ایک کمٹمنٹ رکھتے ہیں۔ ملک اکیسیوں صدی کے ٹیکنالوجی کے سفر میں اب اس بات کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ سیاسی تنائو، تصادم، بدگمانی اور سیاسی تنازعات سے الجھتا رہے۔ کسی مفاہمانہ نکتہ پر ایک روڈ میپ او رصائب سیاسی فیصلے کی بنیاد ناگزیر ہے۔ بلوچستان کے عوام کو اقتصادی، تعلیمی، صحت و ثقافت، سماجی اور دیگر شعبوں میں ترقی و تبدیلی کے غیر معمولی سماجی و اقتصادی معاملات کی طرف توجہ دینا ہو گی۔ بلوچستان میں بے پناہ صلاحیت ہے۔ یہاں کے لوگ ادب و فن، کھیل او رماہی گیری میں ترقی کے امکانات سے مالا مال ہیں۔ شاہ زین بگٹی کی بلوچ سیاست میں شمولیت اہم پیش رفت ہے۔ برف پگھلی ہے، امید کی کرن پھوٹی ہے۔ شاہ زین نئی نسل کے سیاسی قافلے کے راہ رو ہیں۔ ایک توانا سوچ کے حامل عملیت پسند سیاست دان ہیں۔ ان کی ذمہ داریوں میں بنیادی کام اب صوبہ میں مکالمہ میں وسیع البنیاد ہم آہنگی، فکری اور سیاسی تکثیریت کو فروغ دینا ہے۔ سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتوں میں رابطے پیدا کرنے کا اہم ٹاسک ان کے پیش نظر ہوگا۔ وہ بگٹی خانوادے کے بہترین دماغوں میں شمار ہوتے ہیں۔ لیکن بلوچستان کے سیاسی مسائل، قبائلی کلچر اور حقیقت پسندانہ اتفاق رائے کی نئی بنیاد پر صوبے کو ماضی کے تنازعات کے گورکھ دھندے سے نکالنا ہوگا۔ عصری، قومی اور بین الاقوامی تقاضوں اور ملکی تعمیر وترقی کے زمینی حقائق سے منسلک کرنے کے مشترکہ سیاسی مقصد کا حصول ان کے لیے ایک چیلنج ہے۔ اور کوئی مشکل نہیں کہ اسے قومی مفاد میں حاصل نہ کیا جاسکے لیکن اس کے لیے قربانی، ایثار ، بے لاگ سیاسی فیصلوں اور اقدامات میں بلوچستان کے عوام کی دکھ درد کی شمولیت اشد ضروری ہے۔ اس سے کسی کو انکار نہیں ہوگا کہ بلوچستان کی سیاست میں صوبے کے عوام نے بہت صدمات اٹھائے۔ آج بلوچستان میں غربت بے پناہ ہے۔ وزیراعلیٰ جام کمال خان کی حکومت کوسی پیک منصوبے سے بڑی امیدیں وابستہ یں۔ صوبہ اقتصادی ترقی کی دہلیز پر آگیا ہے۔ سیاسی اشتراک عمل اوریکجہتی سے بلوچستان میں سیاسی افہام و تفہیم کی منزل بلاشبہ طے کی جاسکتی ہے۔چند روز قبل گوادر میں خطاب کے دوران وزیراعظم نے ان ناراض بلوچوں سے مذاکرات کا اعلان کیا تھا جو بھارت کے ساتھ مل کر دہشت گردی میں ملوث نہیں ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے رواں سال 30 اپریل کو گورنر بلوچستان امان اللہ یاسین زئی کو ایک خط کے ذریعے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا کہا تھا۔ نئے گورنر سید ظہور آغا کا تعلق تحریک انصاف او ربلوچستان کے ضلع پشین سے ہے۔ ظہور آغا نے عملی سیاست کا آغاز 2006ء میں تحریک انصاف سے کیا۔ سینیٹ انتخابات 2021ء میں پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر انہوں نے سینیٹ الیکشن میں حصہ لیا تاہم مرکزی قیادت کی ہدایت پر سینیٹ انتخابات سے دستبردار ہوئے۔ سید ظہور آغا کے بطور گونرربلوچستان حلف اٹھانے تک سپیکر میر عبدالقدوس بزنجو قائم مقام گورنر کے فرائض سرانجام دیں گے۔ عمران خان نے سپیکر کو انتخابی اصلاحات کے حوالے سے مؤثر کردار اد اکرنے کا ٹاسک سونپ دیا۔ انہوں نے وفاقی بجٹ پاس کرانے اور قومی اسمبلی میں حکومت، اپوزیشن کشیدگی ختم کرانے میں سپیکر کے کردار کو سراہا۔
ایک خوش آئندامر یہ ہے کہ پاکستان 74 سال میں پہلی دفعہ قیمتی پتھروں، زیورات اور معدنیات کے شعبے کو برآمدی صنعت بنانے جارہا ہے۔ حکومت معدنیات اور قیمتی پتھروں کے شعبے کے روایتی طریقوں کو بدل کر جدید ٹیکنالوجی سے اس شعبے کی تشکیل نو کررہی ہے۔ پاکستان میں اس وقت 99 قسم کے قیمتی پتھروں کے ذخائر موجود ہیں اور اس شعبے میں پیداوار کے حوالے سے پاکستان دنیا میں آٹھواں بڑا ملک ہے۔ چنا نچہ ایک منصو بے کے مطابق جیمز اینڈجیولری سٹی کا قیام عمل میں لایا جائے گا جہاں وسائل کو ایک جگہ اکٹھا کرنے، شعبے کو درپیش مسائل کے حل کے لیے ون ونڈو آپریشن فراہم کرنے اور سرمایہ کاروں کو مراعات فراہم کرنے کو یقینی بنایا جائے گا۔