انسانیت سے محبت ہی زندگی ہے

انسانیت سے محبت ہی زندگی ہے

یہ تحریر ، یہ کوٹیشن ،حکایت یا قول میں نے کہیں لکھا پڑھا ہے۔اس تحریر نے میری روح سرشار کر دی۔آج میں نے سوچا کہ تحریر میں قارئین کے بھی گوش گزار کرتا ہوں۔
 ”ایک پانی سے بھرے برتن میں ایک زندہ مینڈک ڈالیں اور پانی کو گرم کرنا شروع کریں۔ جیسے ہی پانی کادرجہ حرارت بڑھنا شروع ہو گا ، مینڈک بھی اپنی باڈی کا درجہ حرارت پانی کے مطابق ایڈجسٹ کرے گا اور تب تک کرتا رہے گا جب تک پانی کا درجہ حرارت ”بوائلنگ پوائنٹ“ تک نہیں پہنچ جاتا۔جیسے ہی پانی کا ٹمپریچر بوائلنگ پوائنٹ تک پہنچے گا تو مینڈک اپنی باڈی کا ٹمپریچر پانی کے ٹمپریچر کے مطابق ایڈجسٹ نہیں کر پائے گا اور برتن سے باہر نکلنے کی کوشش کرے گا لیکن ایسا کر نہیں پائے گا کیونکہ تب تک مینڈک اپنی ساری توانائی خود کو ”ماحول کے مطابق“ ڈھالنے میں صرف کر چکا ہو گا بہت جلد مینڈک مر جائے گا۔۔۔یہاں ایک سوال جنم لیتا ہے ”وہ کونسی چیز ہے جس نے مینڈک کو مارا؟“سوچئے! 
میں جانتا ہوں کہ آپ میں سے اکثر یہ کہیں گے کہ مینڈک کو مارنے والی چیز وہ ”بے غیرت انسان“ ہے جس نے مینڈک کو پانی میں ڈالایا پھر کچھ یہ کہیں گے کہ مینڈک ابلتے ہوئے پانی کی وجہ سے مرا لیکن سچ یہ ہے کہ مینڈک صرف اس وجہ سے مرا کیونکہ وہ وقت پر جمپ کرنے کا فیصلہ نہ کر سکا اور خود کو ماحول کے مطابق ڈھالنے میں لگا رہا۔ہماری زندگیوں میں بھی ایسے بہت سے لمحات آتے ہیں جب ہمیں خود کو حالات کے مطابق ایڈجسٹ کرنا پڑتا ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے خیال رکھیں کہ کب آپ نے خود کوحالات کے مطابق ڈھالنا ہے اور کب حالات کو اپنے مطابق۔اگر ہم دوسروں کو اپنی زندگیوں کے ساتھ جسمانی، جذباتی، مالی، روحانی اور دماغی طور پر کھیلنے کا موقع دیں گے تو وہ ایسا کرتے ہی رہیں گے اس لیے وقت اور توانائی رہتے ”جمپ“ کرنے کا فیصلہ کریں “
قارئین!گزشتہ سے پیوستہ ایک واقعہ اور پڑھیے اور اپنی زندگیوں کو انسانیت کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کیجیے۔ جس نے سنا حیران ہوا کہ ایک چرسی کے ایسے نصیب مگر کیسے ؟ایسا کیا عمل تھا اس کا؟ سٹیج پر فقیر محمد کا نام پکارا گیا تو وہ آہستہ سے اٹھ کر سٹیج کی طرف چل دیا فقیر محمد شکل سے بھی فقیر ہی لگتا تھا غربت اس کے چہرے پہ گویا چسپاں تھی۔ 
ایک مل میں کام کرتا تھا اور تنخواہ کی چرس پی جاتا یا تھوڑا بہت گھر دے دیتا تنخواہ میں گزارہ کہاں ہوتا بھلا تو کبھی کسی سے تو کبھی کسی سے ادھار مانگتا تھا۔اب تو لوگ ادھار بھی نہیں دیتے تھے اس کے دو بچے اور بیوی تھی۔بیوی صابر تھی جو بھی دے دیتا اسی میں گزارہ کر لیتی۔ وہ سٹیج کی طرف چلا تو لوگوں میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں ہر کسی کا یہی خیال تھا کہ یہ اس بار بھی انکار کردے گا یہ مل مالکان کی طرف سے ہر سال کسی ایک خوش نصیب ورکر کو حج پہ بھیجنے کی تقریب تھی جس میں پچھلے دو سال کی طرح اس سال بھی فقیر محمد کا نام ہی آیا تھا پچھلے دو سال حج پہ جانے کے بجائے فقیر محمد نے حج کے خرچ کے پیسے لے لیے تھے اور اس سال پھر اسی کا نام نکل آیا تھا۔اس چرسی کے نصیب میں بھلا اللہ کے گھر کی زیارت کہاں ؟یہ حاجی وحید حسن تھا جو اپنے کولیگز کو کہہ رہا تھا۔حاجی وحید چھ ماہ پہلے عمرہ کرکے آیا تھا اور اب اپنے نام کے ساتھ حاجی بھی لکھتا تھا۔حالانکہ حاجی صاحب وہاں جاکر آنے کو دل ہی نہیں کرتا کسی کا بھی اور یہ بدقسمت جانے کے بجائے پیسے لے لیتا ہے یہ شیخ ایوب تھا جو حاجی وحید سے مخاطب تھا یہ بھی عمرہ کر چکا تھا اور شاید جتانا چاہ رہا تھا کہ میں بھی ”حاجی“ ہوں ۔
فقیر محمد سٹیج پہ پہنچ چکا تھا۔ مل مالک شیخ عمر نے اسے مبارک باد دی اور کہا بھئی فقیر محمد تیاری کر لو فقیر محمد نے ایک نظر اپنے کولیگز پر ڈالی اور آہستہ سے بولا۔ میں حج پر نہیں جاو¿ںگا مجھے پیسے دے دیں۔ وہاں موجود تمام لوگوں کو شاید اسی جواب کی توقع تھی۔ کسی کے چہرے پر بھی حیرانگی نہیں تھی۔ شیخ عمر ذرا سا مسکرایا اور بولا اس دفعہ تو ہر صورت تمہیں حج پہ جانا ہی ہو گا۔ فقیر محمد جناب میں کیا کروں گا حج پہ جا کے؟ آپ مجھے پیسے دے دیں فقیر محمد نے دھیمی سی آواز میں کہا نہیں فقیر محمد اس بار تمہیں حج پہ جانا ہی ہو گا شیخ عمر بھی گویا اسے بھیجنے کا تہیہ کر چکے تھے مگر فقیر محمد کا ایک ہی جواب تھا۔ جناب میں کیا کروں گا جا کر۔ میں گنہگار آدمی ہوں چرسی ہوں میرا کیا کام وہاں؟ اور ویسے بھی صاحب جی مجھے پیسوں کی ضرورت ہے۔ ٹھیک اگر تم حج پر جاو¿ تو پورے سال کی تنخواہ بونس کے طور پہ دوںگا۔
شیخ عمر نے آفر کی تو فقیر محمد کی آنکھوں میں چمک سی آ گئی۔ کہنے لگا ٹھیک ہے صاحب میں راضی ہوں۔ شیخ عمر بولے دیکھو تین سال سے مسلسل تمہارا ہی نام نکل رہا ہے اور جا نہیں رہے اللہ پاک ہر صورت تمہیں بلانا چاہ رہا ہے۔ روانگی کا دن آ گیا سال کی تنخواہ فقیر محمد لے چکا تھا۔ گھر والوں اور جو ایک دو جاننے والے تھے ان سے مل کر فقیر محمد حج پہ روانہ ہو گیا حج کیا روضہ رسول پہ حاضری دی حج مکمل کر کے دو دن بعد فقیر محمد کی واپسی تھی مگر آنے سے ایک دن پہلے ہی مکہ مکرمہ میں اس کا انتقال ہو گیا اس کے گھر اطلاع دی گئی اور اس کی بیوی سے اجازت لے کر اس کو دنیا کے دوسرے بہترین قبرستان جنت المعلیٰ مکہ میں دفن کر دیا گیا جس نے سنا حیران ہوا کہ ایک چرسی کے ایسے نصیب مگر کیسے؟ ایسا کیا عمل تھا اس کا؟
کچھ دن بعد مل مالک شیخ عمر فقیر محمد کی بیوی کے پاس تعزیت کے لیے گئے تو اس کی بیوی سے پوچھا بہن ایسا کونسا عمل تھا اس کا کہ تین سال مسلسل اسی کا نام نکلا گیا تو دفن بھی وہیں ہوا۔ اس کی بیوی نے کہا صاحب جی میں اور تو کچھ نہیں جانتی مگر ایک عمل اس کا جانتی ہوں شاید اسی کے سبب یہ رتبہ ملا ہو اسے کہنے لگی ہمارے محلے میں ایک جوان بیوہ ہے اس کی تین چھوٹی بچیاں ہیں جب اس کا خاوند فوت ہوا تو وہ بےچاری لوگوں کے گھروں میں کام کرنے لگی وہ عزت دار عورت ہے اور یہ بھیڑیوں کا معاشرہ ہر جگہ اسے لوگوں کی ہوس کی وجہ سے کام چھوڑنا پڑا اس نے بھوک قبول کر لی مگر عزت کا سودا نہیں کیا۔
میرے خاوند کو پتہ چلا تو اس نے اس بیوہ عورت کو اپنی بہن بنا لیا اور اس کے گھر کا سارا خرچ دینے لگا۔ میرے شوہر کی تنخواہ میں دو گھروں کا گزارہ مشکل تھا اور وہ نشہ بھی کرتا تھا تو وہ ادھار لے کر جیسے بھی کسی سے لوٹ کھسوٹ کر اس کو خرچہ ضرور دیتا تھا۔
دو بار حج پہ نہ جانے کی وجہ بھی یہی تھی کہ پیچھے اس بیوہ عورت اور اس کی بچیوں کا خیال کون رکھتا اس نے دو بار حج کے پیسے لے کر بھی ان کو ہی دیے اور کچھ مجھے وہ اس بار نہیں جاتا اگر آپ اسے پورے سال کی تنخواہ نہ دیتے اس نے پیسے لے کر کچھ گھر کا سامان لیا اور کچھ اس عورت کو لے کر دیا تب وہ حج پہ گیا۔ شیخ عمر کا دل چاہ رہا تھا کہ فقیر محمد اس کے سامنے ہوتا تو وہ اس کے ہاتھ چومتا وہاں سے وہ اس بیوہ عورت کے گھر گئے اس نے بتایا کہ لوگوں کی نظروں میں چرسی شرابی میرے اور میری بچیوں کے لیے فرشتہ تھا کہنے لگی وہ کہتا تھا بہن میرے لیے دعا کردیا کرو بس اور میں اس کے لیے ایک ہی دعا کرتی تھی یا اللہ میرے اس بھائی کو ایمان پہ موت دینا یتیموں کے سر پہ ہاتھ رکھنے سے جتنے بال ہاتھ نیچے آتے ہیں اتنے گناہ معاف ہوتے اتنی نیکیاں لکھی جاتی ہیں اتنے ہی درجات بلند ہوتے ہیں۔ کسی کی ظاہری حالت سے اس کے اعمال کو مت جانچا کرو۔ انسانیت سے محبت اور انسانیت کی خدمت بہت بڑی عبادت ہے۔