غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر

غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر

اس وقت جبکہ پاکستان میں طاقت کے مراکز اور اونچے محلات میں عوام کی قسمت کے فیصلے کئے جا رہے ہیں۔ اس میں سب سے زیادہ سرگرمی پنجاب میں نظر آتی ہے جہاں حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں 5 سیٹوں والی ق لیگ کو حکومت اور اپوزیشن دونوں جانب سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا وعدہ کیا جا رہا ہے مگر ق لیگ کو سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کس کی آفر قبول کرے جس غیر جمہوری اور غیر اخلاقی طریقے سے سودے بازی پر تکرار جاری ہے اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ اردو لغت کا لفظ طوائف الملوکی آج کل تقریباً متروک ہو چکا ہے جس کا مطلب عمومی طور پر تو بدانتظامی اور بدنظمی ہے یعنی ایسا زمانہ جبکہ ملک میں کوئی ایک حکمران نہ رہے لیکن اس کے وسیع اور معنوی مفہوم میں جائیں تو یہ ایسی صورتحال ہے جس میں حکمرانی یا حکومت حاصل کرنے کیلئے پیسے کی اندھا دھند پیش کش کی جائے جس میں اقتدار کی مثال اس طوائف کی سی ہو جائے جسے معاوضہ ادا کر کے کوئی بھی اپنی ہوس کی تکمیل کا آرزومند ہو۔آئین سے دفعہ58-2-B کے خاتمے کے بعد آئین میں ایسا کوئی حفاظتی خطوط باقی نہیں بچے کہ اس طرح کی صورتحال پیدا ہونے کی صورت میں اس درجہ بے توقیر اور گمراہ کن سرعام ہونے والی سیا سی سودا بازیوں کو روکا جا سکے۔
لیکن اس پر بات کرنے سے پہلے بارڈر کے اس پار ہمیں انڈیا کی عام آدمی پارٹی کا ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے تاکہ قاری خود بخود اس کا موازنہ کر سکے۔ عام آ دمی پارٹی کے بانی اور سربراہ اروند  کیجری وال نے بھارتی پنجاب میں اپنی پارٹی کی شاندار کامیابی پر کہا ہے کہ عام آدمی میں بڑی طاقت ہے اور جس دن عام آدمی کھڑا ہوگیا اس دن بڑے بڑے انقلاب آ جائیں گے۔ آج میں اپنے دیس کے لوگوں سے کہتا ہوں کہ اپنی طاقت کو پہچانو،کھڑے ہو جاؤ اور اس کے اندر انقلاب برپا کردو آپ نے پہلے ہی دیس کے 70 برس ضائع کردیے ہیں اب مزید وقت ضائع نہ کریں۔
اب ذر اانڈین پنجاب کے ریاستی انتخاب کا نتیجہ دیکھیں جہاں عام آدمی پارٹی نے پورے صوبے میں جھاڑو پھیردیا ہے پنجاب کی 118 میں سے 92 سیٹیں عام آدمی پارٹی نے جیتی ہیں اور بھگونت مان نے وزیراعلیٰ کا حلف اٹھایا ہے۔ اس الیکشن رزلٹ میں انڈین پنجاب کے بہت بڑے بڑے برج الٹ 
گئے اور عام آدمی پارٹی کے بالکل ہی عام اور گئے گزرے امیدوار کا میا ب ہوئے ہیں جس میں لوبھ سنگھ اگو کے سب سے بڑی مثال ہے 35 سال لوبھ سنگھ کچھ عرصہ پہلے تک موبائل فون کی ایک کھوکھا نما دوکان پر کام کرتا تھا اس کی ماں گاؤں کے سرکاری سکول میں جھاڑو دیتی ہے اس سے پہلے وہ گھروں میں کام کرتی تھی لوبھ سنگھ کا والد پہلے کھیتوں میں مز دوری کرتا تھا اب ترقی کر کے وہ ڈرائیور بن چکا ہے۔ لوبھ سنگھ اگو نے 2017 ء کے الیکشن میں عام آدمی پارٹی کے امیدوار کی حمایت میں اپنے علاقے میں انتخابی مہم چلا کر اسے کامیاب کرا یا اس کی صلاحیت کودیکھتے ہوئے پارٹی نے 2022ء میں پہلی بار اسے اسی حلقے سے امیدوار کھڑا کر دیا جہاں وہ پچھلے الیکشن میں پارٹی کی جھنڈیاں لگانے پر مامور تھا۔
لوبھ سنگھ اگو کے کہانی کا کلائمکس ابھی باقی ہے۔ لوبھ سنگھ نے اس الیکشن میں پنجاب کے موجودہ یعنی حاضر سروس وزیراعلیٰ کانگریس پارٹی کے چرن سنگھ چینی کو بھاری اکثریت سے شکست دی ہے جو کہ 2022ء کے الیکشن کا سب سے بڑا upset ہے جس کے بعد انڈیا میں انہیں Giant Killer کا لقب دیا گیا ہے جس کا مفہوم یہ سمجھ لیں کے جیسے ایک چیونٹی کسی ہاتھی کو جان سے ماردے ۔ 
اب آپ فیصلہ خود کریں کے پاکستان میں گزشتہ 70سال میں کوئی ایسی سیاسی پارٹی وجود میں آسکی ہے جو لوبھ سنگھ جیسے سڑک چھاپ اور کنگلے نوجوان کو اس لئے اسمبلی کا ٹکٹ جاری کر دے کہ وہ اپنے حلقے میں بہت active رہا ہے۔ 
بھارت کے ساتھ اس تقابلی جائزے کے بعد اب ہم واپس پاکستانی سیاست  کا رخ کرتے ہیں جہاں عدم اعتماد شو آہستہ آہستہ اپنے انجام کی طرف بڑھ رہا ہے وزیرا عظم خود کہتے ہیں کہ ہمارے ممبران کو خریدنے کے لیے 20،20 کروڑ کی آفر کی جارہی ہے کبھی کہا جاتا ہے کہ اسلام آباد کے سند ھ ہاؤس میں منڈی لگی ہوئی ہے کبھی چھانگا مانگا کی سیاست کا ذکر آتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ چھانگا مانگا کی بات تو پرانی ہو چکی ہے کیا عوامی حافظے اتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ 2018ء کے الیکشن کے بعد جہانگیرترین کے ہوائی جہاز کی وہ ساری پروازیں بھول گئی ہیں جب آزاد امیدواروں کو ایک ایک کر کے اسلام لایا جاتا تھا ان کے گلے میں حکمران جماعت کا پٹہ یا دوپٹہ ڈال کر وزیراعظم کے ساتھ فوٹو کھینچی جاتی تھی اور پارٹی کے لیے ایک ووٹ بڑھ جاتا تھا اس طریقے سے تحریک انصاف الیکشن میں ن لیگ سے کم سیٹیں لینے کے باوجود حکومت بنا لی اور ایوان کی اکثریتی پارٹی کو اپوزیشن میں دھکیل دیا گیا۔ 
آج یہ بات سب کے سامنے عیاں ہے کہ ترین گروپ ایک اور منحرف دھڑے کے طور پر اپنی پارٹی سے بغاوت کر کے اپوزیشن کے ساتھ ملنے کا فیصلہ کر چکا ہے۔ ایک اور منحرف علیم خان بھی گروپ بھی وجود میں آیا تھا مگر وہ بہت جلد سمندر کی جھاگ کی طرح بیٹھ گیا جو کہ اس وقت سیاسی طور پر لاپتہ ہے۔ 
یہاں پر حکومت کی اتحادی جماعتوں کا کردار سب سے دلچسپ ہے جس میں ق لیگ ،ایم کیوا یم اور بلوچستان عوامی پارٹی ہیں وہ ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے جیسی کرتب گری میں اپنا ثانی نہیں رکھتے اور آخری لمحے تک حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں انہوں نے تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ اسے ووٹ دیں گے جس کے جیتنے کے چانسز یقینی ہوں اور ووٹ منہ منہ مانگی قیمت پر دیا جائے گا۔ اس میں سب سے زیادہ متنازع کردار ق لیگ کا ہے جس نے دونوں طرف لاتعداد مذاکرات کئے ہیں۔ چودھری شجاعت حسین خرابیٔ صحت کے باوجود اقتدار کی غلام گردشوں میں پوری آب و تاب کے ساتھ شامل ہیں۔ آصف زرداری فارمولا یہ تھا کہ اگر ن لیگ عمران خان کوہٹا ناچاہتی ہے تو اس کیلئے پرویز الٰہی کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ دینا ہوگی جب حکومت نے یہ سنا تو انہوں نے ق لیگ کو آفر کر دی کے آپ چھوڑ کر نہ جائیں ہم بزدار کی جگہ آپ کو وزیر اعلیٰ بناتے ہیں جب دونوں طرف سے آفر یکساں ہو تو ق لیگ نے کمال ہوشیاری سے تخمینہ لگایا کہ پی ڈی ایم کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے تو اس وقت کی صورتحال کے مطابق چودھری برادران پی ڈی ایم کے ساتھ ہیں مگر یہ بھی حرف آخر نہیں ہے اس سارے ڈرامے میں بار بار ایک ٹیلی فون کال کا ذکر آ رہا ہے جو یقینا صدر جوبائیڈن والی کال نہیں ہے وہ تو آج تک نہیں آئی۔ دیگر حالات بدستور رہتے ہوئے اگر کو ئی غیر معمولی صورتحال پیش نہ آئی تو حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جائے گی لیکن اس کے بعد کے حالات کسی کو بھی معلوم نہیں۔ آئینی پیچیدگیوں اور طوائف الملوکی کی کیفیت سے نکلنے کا قابل عمل حل نئے انتخابات ہیں ویسے بھی عملاً پاکستان میں وزیراعظم کا عرصۂ اقتدار ڈھائی تین سال کا ہی ہوتا ہے جو یہ 6 ماہ اوپر انجوائے کر چکے ہیں۔ اس سارے قضیے میں وزیر اعظم کے چہرے کے تاثرا ت ان کی آواز کی لرزش اور لہجے کی تلخی ان کی گھبراہٹ کی غماض ہے۔

مصنف کے بارے میں