ایران اور سعودیہ تعلقات میں چین کی سہولت کاری

ایران اور سعودیہ تعلقات میں چین کی سہولت کاری

رواں ماہ دس مارچ کودنیانے اِس خبر کوحیرت سے سنا کہ مشرقِ وسطیٰ کے دواہم ممالک ایران اور سعودیہ 2016 سے منقطع اپنے تعلقات کی بحالی پرنہ صرف متفق ہو گئے ہیں بلکہ دوماہ تک سفارتخانے کھولنے پر بھی اتفاق کرلیاہے مزید  یہ خبر چین کے دارالحکومت بیجنگ سے آئی اسی لیے دنیا ششدر ہے سعودیہ مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ کا کئی دہائیوں سے قابلِ اعتماد ساتھی ہے اسی لیے سب کو توقع تھی کہ وہ فیصلے کرتے ہوئے دنیا کی واحد سُپر طاقت کی مرضی و منشا کے مطابق چلے گا جبکہ ایران و امریکہ تعلقات میں سخت کشیدگی ہے اسی لیے سات برس کے تعطل کے بعد تعلقات کی بحالی کی خبر پر دنیا حیران ہے کیونکہ خطے میں امریکہ کااہم اتحادی سعودیہ شاید پہلے کی طرح باہمی تعاون میں گرمجوش نہ رہے دوسراحیرانگی کا پہلو یہ ہے کہ چین اور امریکہ تعلقات میں تناؤ ہے اسی لیے غیر متوقع چینی سہولت کار ی کی کامیابی پرحیران دنیا اِسے امریکہ مخالف فیصلہ تصورکر رہی ہے یہ درست ہے مشرقِ وسطیٰ میں چین اپنے کردار کو وسعت دے رہا ہے جو امریکی اثرورسوخ کے لیے کسی دھچکے سے کم نہیں اب یہ خیال قوی تر ہورہا ہے کہ عرب ممالک اپنے سرپرست اتحادی امریکہ سے فاصلہ رکھنے میں اب کسی قسم کی پریشانی یادباؤ محسوس نہ کریں۔
ایران اور سعودیہ تعلقات کی بحالی کے لیے ایک برس سے مسلسل کوششیں جاری تھیں اوراِس حوالے سے مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے بغداد اور عمان میں ہونے والے مذاکرات سے پیش رفت کی امید تھی لیکن کوئی نمایاں پیش رفت نہ ہونے پر سمجھ لیا گیا کہ اختلافات کی اتنی بڑی خلیج حائل ہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک فریق بھی اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیا ر نہیں مگر دس مارچ کو بیجنگ سے نشر ہونے والی خبر نے خطے میں دلچسپی رکھنے والے تمام ممالک کو چونکادیا ہے اور دونوں ممالک میں تعلقات کی بحالی میں سہولت کاری کی کامیابی کوچین کے بڑھتے کردار کے طورپر سمجھا گیاہے دراصل امریکہ پر انحصار کی پالیسی سعودیہ بدل رہاہے اگر ایسا نہ ہوتا تو اُس کے زیرِ اثر امارات اور بحرین جو اِس وقت اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے نہ صرف سفارتی تعلقات استوار کرچکے ہیں بلکہ دوبرس کی محنت کے بعد ایران کے خلاف ایک وسیع تر اتحاد بنانے کی کوششوں کو بھی جب کامیابی مل رہی ہے ایسے حالات میں اچانک سعودیہ کا خطے میں قریبی ممالک سے ہٹ کر چلناسبھی کے لیے حیران کُن ہے امریکی اور سعودی قیادت کے ایماپر امارات اور بحرین اسرائیل کے قریب ہوئے اب ریاض کا تہران سے تعلقات کی بحالی کے فیصلے پر سب ششدرہیں حالانکہ سعودی قیادت کا اب بھی بظاہریہ موقف ہے کہ مسئلہ فلسطین کے حل سے قبل وہ اسرائیل سے تعلقات قائم نہیں کرے گا پھربھی اسرئیلی حلقے پُر امید تھے کہ ایران مخالف اتحاد میں سعودیہ کوشامل کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی لیکن چینی سہولت کاری نے اندازے غلط ثابت کردیے ہیں اب ایران کے خلاف خطے کے ممالک کی طرف سے کسی نوعیت کی فوجی کارروائی کاحصہ بننے کے امکانات کافی حد تک ہوگئے ہیں۔
کیا سعودیہ آزاد خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہے؟ اِس سوال کا ہاں کے سوا کوئی اور جواب ممکن ہی نہیں جس کی کئی ایک وجوہات ہیں اول یہ کہ مشرقِ وسطیٰ اور بحرہند میں چین کو امریکہ اپنے لیے اب روس سے بڑاخطرہ تصور کرتا ہے اور اُس کی اعلانیہ کوشش ہے کہ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کو اعتماد میں لیکر چینی اثرات کو کم کیا جائے صدرجوبائیڈن منتخب ہونے کے بعدسعودیہ جانے سے گریز کرتے رہے مگرجب یوکرین پر حملے کے نتیجے میں روس پر عالمی پابندیاں لگیں اور تیل کی قیمتوں میں یکدم اضافہ دیکھنے میں آیاتو وہ دورے پر تیارہوئے گزشتہ برس جولائی میں ریاض کے دورے کے دوران کئی تجاویز پر مشاورت ہوئی اِس دوران ایک غیر اعلانیہ معاہدہ یہ طے پایاکہ قیمتوں میں کمی کے لیے تیل کی پیداوار میں اضافہ کیا جائے مگرسعودیہ نے پیدوار میں کمی کردی جسے امریکی خواہش کے منافی اورتیل کے مسئلہ پر امریکہ کی بجائے روسی موقف کی فتح سمجھا گیاامریکی حکام ایسے فیصلوں کو پرنس محمد بن سلیمان کی طرف سے روسی صدرولادیمیرپوتن کی ہمنوائی قراردیتے ہیں اب تعطل کے شکار تعلقات کو بہتر بنانے کے ایرانی اور سعودی فیصلے سے ایک دوسرے سے الجھانے کی امریکی کوششیں بُری طرح ناکام ہوتی محسوس ہوتی ہیں جس سے خلیج فارس اور مشرقِ وسطیٰ میں امریکی عسکری قوت کی موجودگی کامنصوبہ چوپٹ ہونے کا امکان بڑھ گیا ہے۔
چین و امریکہ پالیسی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ چین کو فوجی اڈے بنانے کی بجائے سرمایہ کاری اورتجارتی سرگرمیوں سے زیادہ دلچسپی ہے وہ نہ صرف مشرقِ وسطیٰ میں ابھی تک کسی دفاعی اتحاد کا حصہ نہیں بلکہ آج تک اِس خطے کے کسی ملک میں فوجی اڈ ابھی نہیں بنایا وہ مسلہ فلسطین کے پُرامن حل کی بات بھی کرتا ہے مگرامریکہ آج بھی فوجی اڈے بنانے اور اپنی عسکری موجودگی برقرار رکھنے کے طویل المعیاد منصوبوں میں دلچسپی رکھتا ہے حالانکہ افغان جنگ ایشیا پر اُس کی گرفت کمزور کرنے کا باعث بنی دوسری جنگِ عظیم سے قبل خلیج فارس اور مشرقِ وسطیٰ پر فرانس اور برطانیہ کا غلبہ تھا جلد ہی امریکہ نے اُن کی جگہ لے کرخطے کے دفاع و سلامتی کی ذمہ داریاں سنبھال لیں مگر گزرے 75 برس سے لی ذمہ داریاں اب کم یاختم ہونے کے آثار ہیں حالانکہ پہلے اُس نے روس کوخطرہ بنا کر پیش کیا اب چین کو بھی ایسا ہی خطرہ ثابت کرنے میں مصروف ہے نیزاسرائیل کی غیر مشروط حمایت کرتاہے اورمسئلہ فلسطین کاحل بھی اسرائیلی رضامندی کی صورت میں قبول کرنے پر یقین رکھتا ہے عراق جنگ سے اُس کے بارے تنازعات کو ہوا دینے کا تاثر گہرا ہوا جس سے خطے میں عوامی جذبات مزید مخالف ہوئے اسی بنا پرچین کی طرح اُس کے بارے میں عوامی سطح پر خیر سگالی کے جذبات نہیں سعودی قیادت نے طویل عرصے سے امریکہ پر انحصار کم کرتے ہوئے اپنی قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات شروع کردیے ہیں تاکہ نہ صرف لاحق خطرات کم ہو سکیں بلکہ مستقبل میں تیل کے متبادل معیشت کو استوارکیا جا سکے یہ سوچ اور اقدامات ایران و سعودیہ کے درمیان محازآرائی کے خواہشمند امریکہ اور اسرائیل کے لیے دھچکے سے کم نہیں۔
کچھ حلقے چین کی اچانک خطے میں دلچسپی کی وجوہات تلاش کررہے ہیں حالانکہ یہ جاننے کے لیے زیادہ سوچنے کی ضرورت ہی نہیں سعودی تیل کا چین ایک اہم خریدارہے اور وہ  راہداری محفوظ رکھنا چاہتا ہے 2019میں ہونے والے سمندری گزرگاہ کے دھماکوں نے اُسے بے چین کیااسی برس جب حوثی حملوں سے سعودی آئل فیلڈ آرامکو کو نشانہ بنایاگیا تو عالمی منڈی میں اچانک تیل کی قیمتوں میں چودہ فیصد تک اضافہ ہوگیا وجہ سعودی تیل کی پیدوار میں عارضی ہی سہی کمی ہوئی یہ چین کے لیے بہت پریشان کُن صورتحال تھی اُسے خلیج فارس کے تنازعات سے توانائی کی فراہمی اور اقتصادی اور تجارتی مفادات متاثر ہوتے محسوس ہوئے اسی بناپر خطے کی سلامتی اور تنازعات کے خاتمے کے لیے اُسے متحرک ہونا پڑا چین کے اسرائیل سے بھی قریبی تعلقات ہیں لیکن فلسطین مسئلہ کے پُرامن حل پر بھی یقین رکھتاہے اور اپنی قومی سلامتی اور مفادات سب سے عزیز ترہیں جنھیں محفوظ بنانے کے لیے اُسے متحرک ہونا پڑاسعودیہ اور ایران کی طرف سے بھی خواہش کے اظہار سے معاہدے کی منزل آسان ہوتی گئی۔
ایران اور سعودیہ تعلقات کی بحالی کا معاہدہ چین کی ایک اہم سفارتی کامیابی ہے اور اِس کاعالمی سطح پر خیرمقدم کیا جارہا ہے مگر امریکہ اور اسرائیل میں تشویش ہے بظاہر وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی نے خیر مقدم کرتے ہوئے کہاہے کہ سعودیہ نے مذاکرات کی تفصیلات سے ہمیں باخبر رکھا ہے مگر یہ کوئی راز نہیں رہا کہ بائیڈن اور اُن کے مشیر پریشان ہیں اور اِس معاہدے کو روکنے کی کوشش بھی کی لیکن کامیابی نہ مل سکی اب خطے میں محازآرائی اور کشیدگی کے خاتمہ سے ترقی اور خوشحالی کے نئے منصوبوں پر کام ہو گااور نہ صرف چین کو تیل کی درآمدات میں آسانی ہوگی بلکہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کی توسیع میں حائل رکاوٹوں کا بھی خاتمہ ہو گا سعودیہ نے شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن میں شمولیت میں بھی دلچسپی ظاہر کی ہے چینی تعاون سے ایران اور سعودیہ تعلقات کی بحالی کو جیوپولیٹکل اور جیواکنامک کے حوالے سے بھی اہم قراردیا جارہا ہے سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ نہ صرف خلیج فارس اور مشرقِ وسطیٰ بلکہ افریقہ،جنوبی ایشیا سمیت بحرِ ہند کے دیگر ممالک بھی چین کے قریب آ سکتے ہیں۔
  یمن جنگ کی وجہ سے حوثیوں نے سعودیہ پر سینکڑوں میزائل فائر کیے اوربڑی تعداد میں بم بردار ڈرون حملوں سے املاک کو نشانہ بنایا یواین اوکی ایک رپورٹ کے مطابق اب تک یمن میں گزشتہ آٹھ برس سے جاری خونریزی کے دوران تین لاکھ 77 ہزار انسانی جانیں تلف ہوئیں جیسے نقصانات کے خاتمے کی یہ معاہدہ کلید ثابت ہو سکتا ہے یہ معاہدہ ایران کے لیے بھی بہت اہم ہے نہ صرف امریکی ایماپر اُس پرلگنے والی پابندیاں بے اثر ہوں گی بلکہ یوکرین جنگ میں ڈرون کی فراہمی سے روس کا قابل اعتماد ساتھی بننے کے بعداب اُسے چین کا اعتماد بھی حاصل ہو گا جس سے جزوی حد تک ہی سہی اُسے جوہری پروگرام جاری رکھنے میں سہولت ملے گی لیکن یہ کہنا کہ امریکہ بالکل ہی خطے سے باہراور غیر اہم ہو گیا ہے ابھی یہ کہنا قبل ازوقت ہوگا فی الحال اُس کی اہمیت برقرار ہے اسرائیل کی صورت میں وہ کسی بھی ملک کو دھمکانے کی پوزیشن میں اب بھی ہے نیز خطے کے اہم ترین ممالک سے فوجی،تجارتی سمیت کئی شعبوں میں انتہائی قریبی تعلقات برقرار ہیں البتہ یہ درست ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد جو اُس کی پوزیشن علاقے کے واحد کھلاڑی کے طور پرتھی وہ کسی حد تک متاثر ہوسکتی ہے کیونکہ ایک تو 2015شام کی خانہ جنگی میں فوجی بھیج کر نہ صرف روس خطے میں واپس آیااب چین جیسے نئے اور اہم کھلاڑی کے طورپر آمد سے مفادات مزید متاثر ہوں گے علاوہ ازیں ایران سعودیہ معاہدے میں سہولت کاری سے چین کو ایشیا سے باہر فوجی اڈے بنانے کاامکان بھی ہے۔