انصاف کی فراہمی: رینکنگ میں بہتری کی ضرورت ہے

انصاف کی فراہمی: رینکنگ میں بہتری کی ضرورت ہے

پاکستان میں آئین کی بلا دستی اور قانون کی حکمرانی کا ذکر اس قدر زیادہ ہے کہ سنتے سنتے کان پک گئے ہیں۔ کیا سیاستدان، کیا ادارے اور کیا عدلیہ سبھی یہی جھنڈا اٹھائے پھرتے ہیں لیکن حالت کہ قانون کی حکمرانی، اگرچہ پوری دنیا میں اس کا گراف نیچے کی طرف جانے کا رجحان ہے، لیکن صد افسوس کہ دنیا کے 140 ممالک میں سے پاکستان کا نمبر 129واں ہے۔ اس کے علاوہ آئین تو جیسے موم کی ناک ہو جب اور جیسے جس کا دل چاہتا ہے اس کو موڑ دیتا ہے۔ ڈکیٹر صاحبان تو سیدھے سیدھے اسے بلائے تاک ہی رکھ دیتے ہیں۔ 
ورلڈ جسٹس فورم(World Justice Forum) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار نا صرف بین الاقومی سطح پر ان ممالک میں ہے جہاں قانون کی حکمرانی کی حالت بہت پتلی ہے بلکہ اس سلسلہ میں ہمارے ریجن یعنی جنوبی ایشیا میں بھی پاکستان کی پوزیشن دیکھ کر شرمندگی ہی ہوتی ہے۔ 
رپورٹ کے مطابق ہمارے ریجن میں موجود چھ ممالک میں پاکستان کی پوزیشن پانچویں ہے، یعنی نیپال، سری لنکا اور بھارت ہم سے بہتر پوزیشن میں ہیں اور ہم افغانستان اور بنگلہ دیش کے ساتھ کھڑے ہیں۔ 
یہ بات تو تھی ایک بین الاقومی ادارے کی رپورٹ کی، لیکن مشاہدے کی بات ہے کہ ہمارے تھانوں کی صورتحال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی یا اپنے ساتھ پیش آنے والی کسی لاقانونیت کے خلاف قانونی کاروائی کرنا چایتا ہے تو اسے ملزمان سے زیادہ نہیں تو کم از کم اتنے ہی تھانے کے چکر لگانے پڑتے ہیں اور ملزم سے زیادہ پیسے (رشوت کی مد میں) خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ ماتحت عدلیہ کا یہ حال ہے کہ کہ اگر کسی کے پاس جیب بھر کے پیسے نہیں ہیں تو وہ تو ادھر کا رخ کرنے کے بارے میں سوچے بھی نہ۔ یہاں کی صورتحال کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ یہاں تو لوگ سلام کا جواب دینے کے بھی پیسے طلب کر لیتے ہیں۔ 
اعلیٰ عدلیہ پر کام کا اس قدر بوجھ ہے کہ لوگ اپنی سزائیں پوری کر لیتے ہیں، پھانسی لگ جاتے ہیں یا فوت ہو جاتے ہیں تو ان کی اپیلیں شنوائی کی لیے لگتی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم دیکھتے ہیں کچھ سیاسی راہنماوں کی معاملات، چھٹی والے دن یا رات گئے بھی سن لیے جاتے ہیں۔ اگر کوئی کیس آج فائل تو وہ کل لازمی شنوائی کے لیے لگ جاتا ہے۔ شائد ہمارے سیاستدانوں کے معاملات عام آدمی کی زندگی موت یا اس کے نفع نقصان سے زیادہ اہم ہیں یہی وجہ ہے کہ معزز اعلیٰ عدلیہ ان معاملات پر بھی کئی روز صرف کر دیتی ہے جو صاف نظر آ رہا ہوتا ہے کہ صرف اور صرف عدلیہ کا وقت ضائع کرنے کے لیے دائر گئے ہیں۔ 
عدالتی نظام کی رفتار اور کارکردگی کا اندازہ تو تھا ہی لیکن گزشتہ روز ایک عزیز کا معاملہ سنا تو سر پیٹنے کو دل چاہا۔
 رانا صاحب ایک اول درجے کے شریف آدمی ہیں۔ کسی طور انہوں نے ماڈل ٹاون ایکسٹنشن میں ایک چھوٹا سا گھر خرید لیا اور مہنگائی کے پیش نظر مالی معاملات میں سپورٹ کے لیے اس کو کرایہ پر دے رکھا تھا۔ کچھ عرصہ پہلے پتہ چلا کہ ان کا کرایہ دار انہیں کافی پریشان کر رہا ہے اور کرایہ وغیرہ بھی ادا نہیں کر رہا۔ ابھی وہ اسی پریشانی میں تھے کہ معلوم ہوا کہ کرایہ دار صاحب انتہائی جھوٹی باتوں کو بنیاد بنا کر عدالت سے ایک حکم امتنائی بھی لے آئے ہیں۔ 
پریشانی کے عالم میں وہ میرے پاس آئے تو میں نے انہیں ایک لائق اور شریف وکیل آغا ظفر اقبال سے مشورہ کرنے کو کہا۔ خیر، جو طریقہ کار طے ہوا اس کے مطابق رانا صاحب کو نہ صرف کرایہ دار موصوف کی جانب سے دائر کردہ مقدمہ میں جواب داخل کرنا تھا بلکہ اپنی جانب سے بھی اپنی جائیداد پر غیر قانونی قبضہ اور کرایہ نہ ادا کرنے کے خلاف پٹیشن فائل کرنا تھی۔ اس سب کے علاوہ عدالتی تقاضوں کے پیش نظر انہیں کرایہ نامہ کے مطابق ایک سال کے کرایوں کے جو بھی رقم بنے اس کا دس فیصد بطور کورٹ فیس جمع کروانا تھا۔ 
ان تمام معاملات کو مکمل کرنے کے بعد رانا صاحب کئی ماہ تک عدالت کے چکر کاٹتے رہے اور کرایہ دار موصوف ان کی جائیداد پر قبضہ کے مزے لیتا رہا۔ آخر کار رانا صاحب آغا ظفر صاحب کی خصوصی کاوشوں کے نتیجہ میں اپنا کیس تو ثابت کرنے میں کامیاب ہو گئے لیکن معزز جج صاحب نے اپنا فیصلہ لکھتے ہوئے اس ناجائز قابض کو دو ماہ کی مدت مزید دے دی۔ یعنی چھ، آٹھ ماہ سے تو وہ ناجائز قابض تھا ہی اب عدالت نے مزید دو ماہ کے لیے اس کے قبضہ کو جائز قرار دے دیا۔ 
بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ مذکورہ فیصلہ کے خلاف سیشن کورٹ میں اپیل کرنے کے لیے تیس دن کی مہلت ہوتی ہے۔ اس ناجائز قابض نے عین آخری دن مذکورہ فیصلہ کے خلاف اپیل دائر کر دی۔ اس اپیل کا فیصلہ کب ہو گا یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن رانا صاحب کو اب جو فکر لاحق ہے وہ یہ کہ اس ناجائز قابض کے پاس ابھی اعلیٰ عدلیہ میں اپیل کرنے کا حق بھی دستیاب ہے۔ یعنی مزید خرچے اور مزید خواری۔ 
یقینا اس طرح کے اور اس سے بھی زیادہ سنگین نوعیت کے ہزاروں معاملات ہماری عدالتوں میں زیر التوا ہوں گے۔افسوسناک امر ہے کہ جو حق پر ہے وہ ذلیل و خوار ہو رہا ہے اور جو غاصب ہے وہ قانون میں دستیاب جھول سے مزے اٹھا رہا ہے۔ 
میری تو اپنی عدلیہ سے درخواست ہو گی کہ عمران خان جیسے لوگوں کے لیے اندھا دھند وقت ضائع کرنے کے بجائے سالہا سال سے زیر التوا مقدمات کو نمٹانے کے لیے خصوصی اقدامات کریں۔ جھوٹے، غاصب اور ناجائز کرنے والوں کے خلاف نہ صرف فوری فیصلے کریں بلکہ انہیں ایسی حرکتوں کی پاداش میں اضافی سزائیں بھی دیں۔ بس یہی ایک طریقہ ہے کہ ہم انصاف کی فراہمی کی رینکنگ میں اپنی پوزیشن کچھ بہتر بنا سکیں۔